HELP BALOCHISTAN Cyclone Victims

HELP BALOCHISTAN Cyclone Victims
مکران ‘ دُولاب جتیں بلوچاں کمک کن اِت

The President of Baloch National Movement

Thursday, December 17, 2009

ملیر میں بلوچ آبادی پرایم کیو ایم کے مسلح غنڈوں کا حملہ اشتعال انگیز ہے

کوئٹہ( پ ر ) ملیر میں بلوچ آبادی پرایم کیو ایم کے مسلح غنڈوں کا حملہ اشتعال انگیز ہے ‘بلوچ اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں ‘بلوچ کسی قوم کے لیے شاؤنسٹ جذبات نہیں کرتے مگر جبر کوخاموشی سے قبول کرنے والوں میں سے بھی نہیں ‘سیاسی رویہ اپناناایم کیوایم کے مفاد میں ہوگا ‘ انتباہ کرتے ہیں کہ اس غنڈہ گردی کا جواب صرف کراچی کے بلوچوں کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے بلوچوں کی طرف سے دیاجائے گا ۔ یہ باتیں بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتراطلاعات سے جاری کردہ ایک بیان میں کراچی کے علاقے ملیرکی بلوچ آبادی صدیق میتگپر ایم کیوایم کے مسلح کارکنان کی طرف سے حملہ کے واقعات کے تناظرمیں جاری کردہ بیان میں کی گئی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیاہے کہ بلوچ دنیامیں جہاں کہیں بھی آباد ہوں اُن کے رشتے اپنی تاریخی سرزمین بلوچستان سے جڑے ہوئے ہیں ۔کل جن بلوچوں نے پنجاب سے ہانکے گئے مہاجرین کواپنے شہر کراچی میں پناہ دے کر بحالیمیں مدد دی آج اُنہی کی نسل پر مشتمل ایک شاؤنسٹ ٹولہ احسان فراموش بن کر بلوچ نسل کشی میں پنجاب کے آلہ کار کردار کا اداکررہاہے ۔ بلوچ اپنے عمل او ر کردار سے واضح کرچکے ہیں کہ وہ کراچی میں اپنے ساتھ تیسرے درجے کی شہری جیسا سلوک ہونیکے باجود کسی کے خلاف کینہ پرور اور شاؤنسٹ جذبات نہیں رکھتے۔ بلوچوں کی پر امن طبعیت کو اُن کی کمزوری نہ سمجھا جائے بلوچ جب ایک ریاست کے ساتھ 63سال تک جرات وبہادری سے نبر د آزما رہ سکتیہیں تو ایک جماعت سے نمٹنا بڑی بات نہیں ہوگی ۔باوجود بلوچستان کی وسیع سرزمین ‘کراچی ‘ڈیرہ جات ور اندرون سندھ میں بڑی آبادی اور وسائل کے ساتھ بہتر پوزیشن میں ہوتے ہوئے کراچی میں بسنے والی اقوام کے درمیان فساد نہیں چاہتے لیکن اس کے لیے دوسری اقوام کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ایم کیوایم اگر اپنے دعوے کے مطابق ایک سیاسی جماعت ہے تو ان مسلح غنڈوں کے کردار کی وضاحت کرئے جو اُن کے نام پر بلوچوں کو قتل کرنے کے متعدد واقعات میں ملوث ہیں ۔ایم کیوایم کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی اورباہمی تنازعات کا شکار ہے اپنی ذاتی جھگڑوں میں بلوچوں کو ملوث کرنانفرت کی انتہاہے ۔ بلوچ اُن کے رویے کے وجہ سے اُنہیں دوست نہیں سمجھتے لیکن اب تک اُنہیں دشمن قرار نہیں دیاگیاہے اگر مہاجر دوستانہ رویہ نہیں اپنا سکتے تو اجنبی کی طرح رویہ اختیار کریں وگرنہ تمام تر کشیدہ صورتحال کے ذمہ دار خود ہوں گے ۔ کراچی میں بسنے والے بلوچ ہر مشکل وقت میں دوسرے علاقوں کے بلوچوں کو اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے مگر سب سے پہلے کراچی میں رہنے والے بلوچوں کو آپس میں مثالی اتحاد کا ثبوت دینا ہوگااور ساتھ ہی ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے اپنی حفاظت کے انتظامات کرنے ہوں گے ۔

Tuesday, December 15, 2009

بی این ایم تمپ ھنکین نذر آبادبنزہ کے باسک درجان محیب کی ممبر شپ پارٹی منشور اور آئین کی خلاف ورزی کر نے پرختم کردی گئی

کوئٹہ ( پ ر ) بی این ایم کے مرکزی اعلامیہ میں کہا گیا ہے بی این ایم تمپ ھنکین نذر آبادبنزہ کے باسک درجان محیب کی ممبر شپ پارٹی منشور اور آئین کی خلاف ورزی کر نے پرختم کردی گئی ہے جس سے مذکورہ شخص کا بی این ایم سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔مذکورہ باسک کی ممبر شپ پارٹی آئین کے مطابق ھنکین صدر کی سفارش پر دمگ کے ممبران کی توثیق کے بعد ختم کی گئی ہے ۔

پاکستان کے نام نہاد جمہوری ومذہبی جماعتیں منافقانہ بیانات دے کر بلوچوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مر کزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ پاکستان کے نام نہاد جمہوری ومذہبی جماعتیں منافقانہ بیانات دے کر بلوچوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ۔ایک طرف بلوچستان کے حالات کو پاکستان کے 63سالہ جبر کانتیجہ تسلیم کیا جارہاہے جب کہ دوسری طرف بلوچ حریت پسند سیاسی ومسلح جھدکار وں کو غیر ملکی ایجنٹ قراردے کر مقبوضہ بلوچستان میں انڈیا اور ازرائیل کی مداخلت کا شور مچا یاجارہاہے ۔ مقبوضہ مشرقی بلوچستان پر پاکستان نے قبضہ کررکھا ہے جس کی پشت پناہی سے یہاں کے داخلی معاملات میں شاؤنسٹ پنجابی ایجنسیاں اور اُن کے فورسز مداخلت کررہی ہیں ۔بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کثیر تعداد میں پنجابی ایجنسیوں کے اہلکار بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں اوراسلحہ سمیت گشت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو دہشت زدہ کر کے اپنے قبضے کے خلاف خاموش رکھ سکیں ۔ پی پی پی حکومت کی طرف سے بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی سے لاتعلقی کا تاثر اشتعال انگیز ہے ۔شاؤنسٹ پنجابی فورسز اور ایجنسیاں بلوچستان میں قتل وغارت گری کررہی ہیں اور پی پی پی کی حکومت اُن کے مجرمانہ کارروائیوں کے ثبوت مٹانے کی کوشش کررہی ہے ۔ جس پاکستانی فوج اور ایجنسیوں پر پاکستان کی اپنی حکومت اور عدلیہ اعتماد کرنے پر تیار نہیں اُس پر بلوچ اعتماد کر کے اپنا گردن دشمن کے ہاتھ میں دینے کی حماقت نہیں کر سکتا ۔بلوچوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے پاکستان کے ملا‘سر خے ‘ نیشنلسٹ ‘ ترقی پسند اور جمہوریت پسند سب آزمالیے گئے ہیں اب کسی بیرونی مدد کی نہیں اپنی مدد آپ پر انحصار کر یں گے ۔بلوچوں کو شاہی انداز میں نوازنے کے جھوٹے بیانات اور زبانی دعوؤں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے پاکستانی میڈیا بلوچستان میں جاری فوجی جارحیت کو جائزقرار دینے کی کوشش کررہاہے اس کوشش کے پیچھے پاکستان کے اصل شاؤنسٹ پنجابی حکمرانوں کی منشاء شامل ہے تاکہ بلوچستان پر جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ کر کے بلوچ نسل کشی کے بعد بلوچ سرزمین اور وسائل پر قبضہ مستحکم کیا جاسکے ۔ بلوچ پاکستان کے تمام ریاستی اداروں بشمول صحافت وسیاست کو جد انہیں سمجھتے اور نہ ہی ان سے ہمدرد ی کی اُمید رکھتے ہیں۔ پاکستانی فورسز جبر کی انتہا کر سکتے ہیں لیکن بلوچوں کو ذہنی غلام نہیں بنا سکتے ۔

Monday, December 14, 2009

جبر نے پاکستان کے تعلیمی ومعاشی اداروں سے باندھ رکھاہے ' جبر کے خلا ف مزاحمت باشعور قوم کی پہچان ہے ' قاضی داد محمد

گوادر( پ ر ) پارٹی قیادت سنبھالنے کے لیے کسی معتبر کی ضرورت نہیں بی این ایم کا ہر نظریاتی جھدکار قیادت کااہل ہے ۔ یونٹوں میں موجود باصلاحیت سنگت تحریک کے استحکام کے لیے رہنماہانہ کردار کی ادائیگی کے لیے کسی اجازت نامے کا انتظار نہ کریں ‘ہم انقلابی رو یہ اپنائے بغیر آزادی پسند جھد کارکہلانے کے مستحق نہیں ۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے یہاں پارٹی ممبران کے تعارفی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ بلوچ قوم جبر ی طور پر حکمرانوں کے مسلط کردہ اداروں سے منسلک ہیں لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ پاکستان کے احسان مند ہیں ۔پاکستان نے ہمارے سماجی ادارو ں اسکول اور معاشی منڈیوں پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر پاکستانی کرنسی اور غلامانہ نصاب کی تعلیم ہماری مجبور ی ہے ۔ جبر کی سیاسی تعریف بھی یہی ہے کہ کسی قوم کو اُس کی منشااور مرضی کے بغیر کوئی کام کرنے پر مجبور کیا جائے اس جبر کے خلاف مزاحمت باشعور قوم کی پہچان ہے ۔ مقبوضہ بلوچستان میں بے روزگاری ‘بیماری ‘بھوک‘منشیات اور افلاس جیسے مسائل غیر حقیقی اورقابض دشمن کے پید اکردہ ہیں ان سے نمٹنے کے لیے اپنی توانائیاں ضائع کرنا ایساہی ہے کہ جیسے کوئی کسی درخت کو کاٹنے کے لیے اُس کی پتیوں اور شاخوں کو تراشتاہے ہمیں اگر اس مسائل کے درخت کو ختم کرنا ہے تو شہید واجہ کے فلسفے کے مطابق اس کے جڑ کو کاٹنا ہوگا۔بی این ایم کے جھدکار خود کو جذباتی اور شورش مغز کردار کے طور پر ہر گز متعارف نہیں کروائیں ۔ہم جس بلوچ قوم کے لیے مرنے مٹنے پر تیار ہیں اُس کو برداشت کرنابھی سیکھ لیں ہم نے جب بی این ایم کے آئین ومنشور سے وابستگی کاسوگند لیا تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہماراکوئی ذاتی دشمن نہیں ہمیں بیر گری کے بلوچی روایات اور جوش دلانے والے بتلوں کو آپسی تنازعات کوہوادینے کے لیے ہرگز استعمال نہیں کر نا چاہئے ۔ہمیں یہ بات دوسروں کو سمجھانی ہوگی کہ کوئی انسان سماج سے کٹ کر نہیں رہ سکتا اس لیے ہمیں اپنے سماج کے سدھار اورقومی خوشحالی کے لیے قومی سیاست اور قومی اداروں میں سر گرم ہونا چاہئے ۔

پاکستانی سرکار کی طرف سے آغاز حقو ق بلوچستان پیکج کے اعلان کے ساتھ ہی مظالم اور جارحیت میں اضافہ ہواہے

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ پاکستانی سرکار کی طرف سے آغاز حقو ق بلوچستان پیکج کے اعلان کے ساتھ ہی مظالم اور جارحیت میں اضافہ ہواہے ۔دشت مکران ‘سوئی اور کوئٹہ میں فورسز جارحانہ ایکشن کررہے ہیں ۔جب کہ پاکستان کی پنجاب نواز خفیہ ایجنسیاں بلوچ سیاسی کارکنان کو موقع ملتے ہی اغواء کر کے غائب کر نے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ رواں مہینے غفار لانگو‘سنگت ثناء سمیت دس سے زائد بلوچ قوم دوست رہنماؤں کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکار اغواء کر کے لاپتہ کرچکے ہیں ۔ اغواء کنندگان کو شہید کر کے لاشیں غائب کیے جانے کا خدشہ ہے ۔ پاکستانی حکمرانوں کے بیانات سے اشارے ملتے ہیں کہ پاکستانی ایجنسیوں نے مشرف رجیم کے دور میں اغواء کیے جانے والے چھ ہزار سے زائد بلوچوں کو جن میں سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں قتل کر کے لاشیں غائب کردی ہیں ۔پاکستان میں نام نہاد جمہوری حکومت کے قیام کے بعد ماضی کی نسبت بلوچوں کے ساتھ مظالم میں شدت پید اکردی گئی ہے ۔مشرف رجیم میں صرف اُن لوگوں کو قتل کیا جاتاتھا جو محاذجنگ پر موجود تھے جب کہ پا کستان کی سب بڑی جمہوری پارٹی کے دور حکومت میں بلوچ قد آؤر سیاسی رہنماء غلام محمد بلوچ کو اُن کے تین ساتھیوں لالہ منیر اور شیر محمد کے ساتھ اغواء کے بعد شہید کردیا گیا ۔ جب کہ جلیل ریکی ‘چاکر قمبرانی قبل ازیں غائب کردیے گئے تھے ۔پی پی حکومت کی طرف سے ان غیر انسانی اقدام کو انٹلیجنس آپریشن کا نام دینا شر مناک بیان ہے ۔ پاکستان کا وجود ایک فریب کے سواء کچھ نہیں پنجابی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس بندوبست کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جب کہ بلوچ سمیت دیگرتمام اقوام اپنی آزاد شناخت چاہتے ہیں ۔پنجابیوں کے کاسہ لیس غیر پنجابیچند کٹھ پتلی حکمران یجنٹ کا کردار اداکررہے ہیں جو اپنے حدود سے تجاوز نہیں کرسکتے مذاکرات اور پیکج مقبوضہ بلوچستان میں جاری قتل وغارت گری سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے ۔بلوچ اب کسی کے دھوکے میں آنے والے نہیں دیگرمحکوم بھی اگر خوشحالی چاہتے ہیں تو پنجابیوں کی دھوکا بازی کو سمجھ لیں ۔رئیسانی برادران یہ نہ بھولیں کہ اُن کی حکمرانی چند دنوں کی مہمان ہے انہیں پنجاب کی ثناء نوازی کی بجائے بلوچی دستار کی حفاظت کے لیے جاری قومی جنگ میں شامل ہونا چاہئے بلوچ انہیں اس قتل وغارت گری بھی برابر کے شریک سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنے آپ کو شہداء مرگاپ اور شہید رسول بخش مینگل کے خون سے بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے ۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوے کی طرح بلوچ سیاسی کارکنا ن پر مقدمات کے خاتمے کا دعوی ٰ بھی جھوٹ ہے ' قاضی داد محمد

گوادر ( پ ر ) لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوے کی طرح بلوچ سیاسی کارکنا ن پر مقدمات کے خاتمے کا دعوی ٰ بھی جھوٹ ہے ‘تحریک آزادی سے وابستگی کی بنیاد پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں بی این ایم کے کارکنان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں ‘تحریک سے دستبردار نہیں نتائج بھی قبول کریں گے ۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری اطلاعات قاضی داد محمد نے پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف مقدمات کے خاتمے کے اعلان کے ردعمل میں کیا ۔انہوں نے کہا کہ بلوچ سیاسی کارکنان کو عام معافی دینے کے اعلان کو بہانا بناکر بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کے کچھ سدابہارسیاسی نوسربازوں نے اپنے مقدمات ختم کروائے ہیں ۔بلوچ سیاسی کارکنان میں سے کسی کے خلاف مقدمات ختم نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی بلوچ جھدکار اس طرح کی خواہش رکھتے ہیں ۔فہرست میں شہداء اور گمشدگان کے نام شامل کر کے حکمرانوں نے اپنے کم ظرفی کا ثبوت دیا ہے ۔صرف گوادر میں بی این ایف کے 35سے زائد کارکنان اور حامیوں پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ہیں جن میں سے 20سے زائد بی این ایم کے کارکنان اور دوزواہ ہیں جن میں سے کسی کے خلاف مقدمات واپس نہیں لیے گئے ہیں جن لوگوں کے نام سر کار ی فہرست میں شامل ہیں اُن کو پہلے ہی مذکورہ مقدمات میں عدالت سے بریت مل چکی ہے جب کہ ان کے خلاف تاحال کئی دیگر جھوٹے مقدمات قائم ہیں ۔

کونسل سیشن موجودہ کابینہ کے آئینی مدت کے خاتمے کے بعد 2011میں ہوگا ' سی سی اجلاس بی این ایم

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدر عصاظفر کی سربراہی میں ہونے والے پارٹی کے سینٹرل کمیٹی اجلاس میں بی این ایم کی موجودہ قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ سینٹرل کمیٹی کے اس فیصلے کی توثیق کی گئی کہ پارٹی کونسل سیشن موجودہ کابینہ کے آئینی مدت کے خاتمے کے بعد 2011میں ہوگا ۔سیشن تک تمام زونوں میں آئین کے مطابق پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے تشکیل دے کر اُن کومرکزی نظم کے ساتھ مربوط کیا جائے گا ۔ دفترا طلاعات اور پارٹی کے دیگر مرکزی امور پر اُٹھنے والے اخراجات کے لیے تمام زونوں کوماہانہ ایک ہزار روپے مرکزکو دینے کاپابند بنایا گیاہے ۔اجلاس میں خالی ہونے والے سینٹرل کمیٹی کے نشستوں پر صدر کے نامزدہ کردہ پانچ نئے اراکین کی ممبرشپ کی توثیق کی گئی ۔اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیاکہ بی این ایم تحریک آزادی میں اپنے موثر کردار کی ادائیگی کے لیے اتحادی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی بڑھائے گی تاکہ عالمی سطح پر آزادی پسند جماعتوں کا یکساں موقف پیش کیا جاسکے ۔پارٹی نظم ونسق کی نگرانی اور استعداد کا ر میں بہتری کے لیے دورہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو تمام زونوں کا دورہ کر کے مرکز کورپورٹ کریں گی۔ مرکزی کمیٹی کے تمام ممبران کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ مرکزی فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنائیں ۔سینٹرل کمیٹی کے تین ممبران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جوکہ بی این ایف میں شامل جماعتوں اور بلوچ سیاسی اکابرین کے ساتھ روابط کو مضبوط کر نے اوراہم معاملات پر متفقہ قومی پالیسی کی تشکیل کے لیے کام کر ئے گی مذکورہ کمیٹی بی این ایم سے اتفاق رکھنے والی شخصیات کو بی این ایم میں شمولیت کی باضابطہ دعوت دینے کے لیے دعوتی وفد کے طور بھی کام کر ئے گی ۔اجلاس نے جلسہ جلوس سے زیادہ سر کل اور تنظیمی سازی کے کاموں کو اہم قرار دیتے ہوئے تمام یونٹوں میں باقاعدگی سے سر کل کے کروانے پر زور دیا۔تمام زونوں کے لیے جلسہ عام کرنے سے پہلے مرکز سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا۔اجلاس میں ممبران نے اپنے ریجن اور علاقوں میں پارٹی سر گرمیوں پر رپورٹ پیش کی اور سیاسی حالات کاتنقیدی جائزہ لیا ۔تمام پیش کردہ رپورٹوں کے مطابق بیشتر ریجن میں پارٹی کی کارکردگی بہتر ممبر شپ اور یونٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔

مقدمات ختم کر کے تحریک سے دستبردارنہیں کرایا جاسکتا 'عصاء ظفر

کوئٹہ ( پ ر ) مقدمات ختم کر کے تحریک سے دستبردارنہیں کرایا جاسکتا‘آزادی کے لیے قید وببند معمولی بات ہے پھانسی چڑھنے پر بھی تیار ہیں ‘اگر ضرورت پڑی تو گرفتاریاں پیش کریں گے‘ ڈاکٹر عبدالحئی اور دیگر پارلیمنٹ پسند سر کاری قوم پرست وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش نہ کر یںواضح کر چکے ہیں کہ مراعات ‘ صوبائی خود مختاری اور وسائل کی تقسیم میں حصہ داری نہیں آزادی چاہتے ہیں ‘ اس حوالے سے بی این ایف کے اجلاس میں اہم فیصلے کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدرعصاء ظفر نے سر کار پاکستان کی طرف سے اُن کے اور بی این ایم کے دیگرکارکنان کے مقدمات ختم کیے جانے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے منافقانہ پیکج اور جھوٹے دعوؤں پر بات کرکے یہ تاثر دینا نہیں چاہتے کہ ہم پاکستان کے جبری بندوبست سے کوئی اُمید رکھتےہیں۔ جو سچائی جاننا چاہتے ہیں اُن کے لیے بلوچ مسئلے اوربلوچستان کےحوالے سے پنجاب شاہی کی بد نیتی کو سمجھنا مشکل نہیں ۔بلوچ سیاسی کارکنان کے مقدمات کے خاتمے کو بہانہ بنا کر چور اور لٹیروں نے اپنے مقدمات ختم کروائے ہیں جن کا بلوچ سیاست سے دور کا واسطہ نہیں۔ جن بلوچ سیاسی کارکنان کے مقدمات کے خاتمیکے دعوے کیے جارہے ہیں اُن میں سے اکثریت پاکستان کے خفیہ اداروں کے عقوبت خانوں میں ہیں ۔ جن میں سنگت ثناء نمایاں ترین مثال ہیں جنہیں ایک دن قبل ہی پنجاب شاہی کے خفیہ کارندے اُنکے پانچ ساتھیوں لاپتہ کر چکے ہیں اور جلیل ریکی بھی پاکستانی ایجنسیوں کے تحویل میں ہیں سر کار اُن کے خلاف بوگس مقدمات خاتمے کا اعلان کر کےکوئی خوشبری نہیں سنارہے بلکہ زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں ۔بلوچ سیاسی کارکنان پر جعلیمقدمات کے خاتمے کا شاہی اعلان ایساہی ہے کہ جیسے کسے کوخون بہامیں کفن دیاجائے ۔ دنیا کو دھوکا دینے کے لیے یہ تاثر دیا جارہاہے کہ پنجابیوں نے بلوچوں کے خطرناک جراہم کو ختم کر کے اُن پر احسان کیاہے ۔ اگر پنجاب شاہی اس خطے اور بلوچوں پر اتنا ہی مہربان ہیں تو اپنا قبضہ ختم کر کے بلوچستان سے نکل جائے۔آزادی کی تڑپ بلوچوں کو اب اسی وقت چین سے بیٹھنے دے گی جب وہ ر مادر وطن مقبوضہ بلوچستان کوغلامیکی زنجیروں سے آزاد کرالیں گے ۔پارلیمنٹ پسند سیاسی مداری اس خوش گمانی میں نہ رہیں کہ حریت پسند قوم دوست اب تھک چکے ہیں اور حکومت کی کسی ذلت آمیزپیش کش کو قبول کر کے شہداء کے خون سے غداری کر لیں گے اب حالات بدل چکے ہیں غداری کرنے والوں کا پھولوں کا ہارنہیں پہنایا جائے گابلکہ اس کا نام غداروں کی فہرست میں شامل کرکے اس قومی غدار ی کی سزاء دی جائے گی ۔

بی این ایم کا کوئی یوتھ اور خواتین ونگ نہیں

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات کی طرف سے گزشتہ دنوں اخبارات میں بی این ایم یوتھ ونگ کے حوالے سے جاری کردہ ایک خبر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ بی این ایم کا کوئی یوتھ اور خواتین ونگ نہیں ۔بی این ایم میں صنف اورعمر کے حوالے سے کارکنان میں کوئی درجہ بندی نہیں کی جاتی ۔18سال کا ہر مرد وزن بی این ایم کا تین مہینے
کے دوزواہ بننے کے بعدھنکین صدر کی سفارش پر ممبر بن سکتاہے ۔ذیلی نظم سے تعلق رکھنے والے عہدیدار اور کارکنان کو سختی سے تاکید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ بی این ایم خواتین اور بی این ایم یوتھ ونگ کا نام استعمال نہ کریں بلکہ پارٹی آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے ھنکین اور یونٹ کے اندر کام کریں ۔آئندہ اس طرح کے بیانات دینے کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔

ایڈوکیٹ انور بلوچ نے خود کو تحریک آزادی کے لیے وقف کر رکھا تھا

سیکریٹری جنرل ایڈوکیٹ انور بلوچ کی وفات کے حوالے سے بیان میں کہا گیاہےکہ مرحوم تحریک آزادی کے مخلص جہد کار تھےجنہوں نے خود کو تحریک آزادی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔اُن کی رحلت پارٹی اور قومی کے لیے صدمہ ہے ۔بی این ایم کےکارکنان اُن کی تحریک آزادی اور پارٹی کے حوالے سے خدمات کوہمیشہ یاد رکھیں گے اور اُن کا نام بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ قومی آزادی کے جہد کاروں کے ساتھ سنہرے حروف میں لکھاجائے گا ۔

Thursday, December 3, 2009

مندمیں ایف سی اہلکار وں نے شہیدغلام محمد کے مزار پر لگے پارٹی جھنڈے کواُتار کر مزار کی چار دیواری پر لکھے اُن کے اشعار مٹا دیے

کوئٹہ﴿ پ ر﴾بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعا ت سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ مندمیں ایف سی اہلکار وں نے شہیدغلام محمد کے مزار پر لگے پارٹی جھنڈے کواُتار کر مزار کی چار دیواری پر لکھے اُن کے اشعار مٹا دیے ہیں۔ایف سی کی طرف سے شہیدکے اہل خانہ کو بھی حراساں کیا جارہاہے ایف سی اور پاکستانی فورسز کاجارحانہ یہ رویہ بلوچوں کے لیے نیا نہیں ۔ بلوچ قوم نے قومی غلامی کے خلاف جنگ کااعلان کیا ہواہے اس جنگ کے نتائج کوخنداں پیشانی سے قبو ل کرنے کی جو روایت شہید واجہ اور دیگر بلوچ شہدا نے رکھی ہے پارٹی کا ہر کارکن اسی پر کاربند رہے گا ۔ایف سی کے ظلم وتشددراستے سے نہیں بھٹکا سکتے قوم شہدا ئ کے ورثااور اہل خانہ کے تحفظ سے غافل نہیں البتہ قومی غلامی کے خلاف جدوجہدکو اولیت حاصل ہے جس کی خاطر بلوچ شہدا نے جانوںکانذرانہ پیش کیا ہے ۔بلوچستان کے کونے کونے میں جاری پاکستان کے پنجابی شائونسٹ فورسز کی بربر یت پاکستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے دعوے کوغلط ثابت کرتے ہیںبلوچستان کے حالات بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے لے کرآج تک یکساں ہیں ۔بلوچوں نے کسے سے نہ حقوق کی بھیک مانگی ہے نہ مراعات کی خاطر جنگ لڑرہے ہیں۔ جنگ کا مقصد قومی غلامی سے چھٹکارہ ہے جسے پنجابی شائونسٹ علیحدگی پسندی اور بغاوت کانام دے کر بلوچ نسل کشی کوخطے میں جواز فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ماضی میں بھی بلوچوں پر اسی طرح ظلم ستم ہوتا رہاہے لیکن بلوچ شہدائ کے قبروں کی بے حرمتی کانیاسلسلہ آغاز حقوق بلوچستان پیکج اور پاکستان کے نام نہاد جمہوری حکومت کا تحفہ ہے ۔

Tuesday, November 17, 2009

سند ھ میں شہید بالاچ ڈے منانے کا خیر مقدم

کراچی ﴿ پ ر﴾بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قاضی دادمحمد نے جسقم کی طرف سے سند ھ میں شہید بالاچ ڈے منانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ شہید بالاچ صرف بلوچ قوم کے ہیرو نہیں بلکہ قومی غلامی کے خلاف جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔سندھ دھرتی کی طرف سے شہید بالاچ کی فکرآزادی سے وابستگی کااظہار غلامی کے خلاف سندھی اور بلوچ موقف میں یکسانیت کی دلیل ہے ۔ہم اس جذبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔سندھی بلوچوں کے لوک داستانوں کے مشر کہ کردار وں کی طرح غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے والے قومی ہیروز بھی مشترک ہیں۔جس طر ح سندھودیش کی سیاسی وتمدنی تاریخ میں بلوچوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتااس طرح بلوچ بھی سندھودیش میں قائم اپنے صدیوں پرانے رشتوں کونہیں بھلاسکتے ۔پاکستان کے پارلیمنٹ کے پجاریوں ‘غلامانہ ذہنیت کے حامل سردار وںاورپنجابی اسٹبلشمنٹ کے کاسہ لیس سیاسی نوسر باز وں کی ہمیشہ سے خطے میں بسنے والے محکوم قومو ں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش رہی ہے ۔غلامی کا مشترکہ احساس ہی سندھی اور بلوچوں کے درمیا ن مفاہمانہ اور دوستانہ رشتوں کی مضبوط بنیاد بن سکتاہے۔۔

Monday, November 16, 2009

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی اعلامیہ کے مطابق 22نومبرکوبی این ایم پنجگور ھنکین اور 26 نومبر کوبی این ایم کیچ دمگ﴿ریجن ﴾ کا ورکر کانفرنس

کوئٹہ ﴿ پ ر ﴾ بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی اعلامیہ کے مطابق 22نومبرکوبی این ایم پنجگور ھنکین اور 26 نومبر کوبی این ایم کیچ دمگ﴿ریجن ﴾ کا ورکر کانفرنس ہوگا ۔اس سلسلے میںپارٹی صدر کی طرف سے تمام ذمہ داران کو بھر پور تیاری اور تمام ممبران کو اپنی شر کت یقینی بنانے کی تاکید کی گئی ہے ۔

شہید رسول بخش یونٹ پشکان کی طرف سے عوامی آگاہی مہم

پشکان ﴿ پ ر ﴾ شہید رسول بخش یونٹ پشکان کی طرف سے عوامی آگاہی مہم جاری ہے اس سلسلے کا پہلا پروگرام گزشتہ ہفتے ہوا جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور بی این ایم کے موقف سے اپنے مکمل اتفاق کا اظہار کیا ۔اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچ قوم کے تمام مسائل کا جڑ قومی غلامی میں پیوست ہے غلامی کے خاتمے کے بغیر ہم روزگارتعلیم اور صحت سمیت اپنے کسی بھی مسئلے کا حل نہیں کرسکتے قوم کو خوف کے ماحول سے نکل کر شہید واجہ اور باباخیر بخش کے فکر کو سمجھنا ہوگا جس میں ہماری قومی بقائ ہے ۔جنگ آزادی لڑے بغیرایک پر امن اور خوشحال زندگی کی خواہش غیر فطری اور غیر انسانی روش ہے ہمیں پارلیمنٹ پسند جماعتوں کے بہکاوے اور وقتی لالچ میں آنے کی بجائے کھٹن الات کا مقابلہ کرنا چاہئے کیوں کہ اس مشکل صورتحال سے گزرنے کے بعد ہی ہم منزل تک پہنچ پائیں گے ۔

گوادر میانی اورگوریچان میں بلوچ نیشنل موومنٹ گوادر ھنکین کے ذمہ داران نے ھمل جیھند ‘شہید بالاچ اور شہید اکبر بنزہ تشکیل

گوادر﴿ پ ر ﴾ گوادر میانی اورگوریچان میں بلوچ نیشنل موومنٹ گوادر ھنکین کے ذمہ داران نے ھمل جیھند ‘شہید بالاچ اور شہید اکبر بنزہ تشکیل دے کرسیکریٹریز اور کونسلران کا چنائو کرکے نومنتخب ذمہ داران سے پارٹی وابستگی کا حلف لیاگیا ۔ ھنکین بھر میں بنزہ ﴿یونٹس ﴾ اور دیگر مشاورتیاداروں ﴿کونسل ﴾ کی تشکیل نوکافیصلہ ھنکین کے ایک جائزہ اجلاس میں کیاگیا تاکہ پارٹی نظم کوگزشتہ کونسل سیشن میں ترمیم کردہ پارٹی آئین کےمطابق تشکیل دے کر تقسیم کار کیا جاسکے ۔منتخب عہدیدارن اور ممبران نے اس عز م کا اظہار کیاکہ وہ پارٹی موقف کواپنے دائرہ کار کے اندر ہر بلوچ تک پہنچانے کے لیے انتھک محنت کریں گے۔اس موقع پر موجودھنکین اور مرکزیقائدین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بی این ایم سے وابستگی کا تقاضاہے کہ ہم قومی جدوجہد آزادی کے لیےقربانی کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔ بی این ایم جس شعور ی جدوجہد کی بات کرتی ہے اس کا مطلب قوم کو غلامی کی زندگی کی ذلت اور آزادی کے ثمرات سے متعلق آگاہی دینے کے ساتھ قومی تحریک کے لیے متحرک کردار اداکرنے کی طرف راغب کرنا ہے ۔بی این ایم عالمی جمہوری اصولوں کو تسلیم کرتی ہے اور بنیادیطور پرعدم تشددکی حامی ہے لیکن تشدد کے خاتمے کے لیے تشددکے استعمال کوناگزیر سمجھتی ہے جس کو دنیا کے تمام اقوام تسلیم کرتے ہوئے برائی کےخلاف استعمال کرتے ہیں ۔پارٹی جھد کار کے لیے پارٹی کو وقت دینا ‘ماہانہچندہ کی باقاعدہ ادائیگی اور جانی قربان کے لیے تیار رہنا وہ خصوصیات ہیںجس کی بنیاد پر کوئی شخص پارٹی کا ممبر کہلاتا ہے یہ ایک انقلابی اورحریت پسندجھدکار کے لیے فرض کا درجہ رکھتے ہیں ان میں سے اگر کوئی ایک میں سستی برتے تو وہ صحیح معنوں میں پارٹی جھدکار کہلانے کے مستحق نہیں۔بی این ایم کے کارکن میں یہی خوبی اس کی جدوجہد کی روح ہے جس کا سبق ہمیں شہید واجہ ﴿غلام محمد بلوچ ﴾ اور دیگر شہدائ کے کردار سے ملتا ہے ۔

Tuesday, November 10, 2009

بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی گمشدگی کو ایک سو چونتیس دن گزر گئے ہیں

کوئٹہ ﴿ پ ر ﴾بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی گمشدگی کو ایک سو چونتیس دن گزر گئے ہیں ۔طویل احتجاج کے باوجود پاکستان کے خفیہ ادارے انہیں منظر عام پرنہیں لارہے۔پاکستان کی موجودہ حکومت کی طرف سے جمہوریت اور بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے جھوٹے وعدوں کے باوجود بلوچ سیاسی کارکنان کا ماورائے عدالت خفیہ اداروں ‘ایف سی اور پولیس کے ذریعے گرفتاری کے بعد گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے جس سے لاپتہ بلوچوں کی تعداد دس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جن میں خواتین وبچے بھی شامل ہیں۔رواں ہفتے بی ایس او کے رہنما ئ شفیع بلوچ اور بی آرپی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات ریاض بادینی بھی اغوائ کر کے لاپتہ کردیے گئے ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے سے خیر کی توقع نہیںعالمی برادری کا غیر فعال کرداربھی مایوس کن ہے ۔مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کی بحالی کے لیے جدوجہد میں بی این ایم کا آخری کارکن بھی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرئے گا دنیا کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان نامی ریاست ایک فریب اور جھوٹ کے سوا ئ کچھ نہیں یہ ایک منافقانہ نقا ب ہے جو کہ پنجابیوں نے بلوچ ‘ سندھی ‘ پشتون اورغیر فطری بندوبست میں رہنے والے دیگر مظلوم اقوام کے استحصال کے لیے پہن رکھا ہے۔ سندھیوںنے کراچی میں تاریخی فریڈم ریلی کر کے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھی بلوچوں کی طرح پاکستان میں رہنا نہیں چاہتے اس بندوبست میں رہنے والے اقوام کی رضامندی کے بغیر جبری ریاست کا وجود دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے اگر عالمی برادری امن چاہتی ہے تو اسے محکوم اقوام کی آزادی کی حمایت کرنی ہوگی ۔ جسقم کوغلامی کے خلاف منظم انداز میں آوازاٹھانے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں ڈاکٹر صفدر سر کی کی قیادت سندھودیش کے لیے اُمید کی کرن ہے مستقبل میں آزاد بلوچستان کے سرحدوں کے ساتھ سندھو دیش کاقیام سندھیوں سے قربانیوں کا تقاضہ کرتاہے ۔مشتر کہ دشمن کے خلاف محکوم اقوام کی متحدہ جدوجہد وقت کاتقاضا ہے ۔

Monday, August 31, 2009

شہید رسول بخش مینگل

کوئٹہ ( پ ر ) شہید رسول بخش مینگل بی این ایم کے بانی اراکین میں سے تھے۔جب شہید غلام محمد بلوچ نے اعلان کیا کہ اب پاکستان کا پارلیمانی نظام بلوچ قومی آزادی کا راستہ نہیں ہوسکتا اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کا نام بدل کر بلوچ نیشنل موومنٹ رکھ کر بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ واضح طور پر آزادی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تو شہید اُن چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ان کے موقف کی تائید کی اور ببانگ دہل کہا کہ وہ شہید غلام محمد کی ہر طرح سے حمایت کریں گے ۔و ہ شہید لالہ منیر کے بعد بی این ایم کے دوسرے قائد ہیں جو آخری دم تک شہید غلام محمد بلوچ کے قومی آزادی کے فلسفہ سے وابستہ رہے اور ثابت کردیاکہ بلوچ تحریک آزادی میں بی این ایم کے دوستوں کا کٹنے مرنے کے باوجود جدوجہد جاری رکھنے کا عزم مضبوط عقیدہ ہے ۔ یہ باتیں شہید رسول بخش مینگل کے حوالے سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ تعارفی بیان میں کی گئی ہیں۔بیان میں کہا گیاہے شہید ایک مثالی انقلابی جھدکار ، سائنسی بنیادوں پر قومی سیاست کرنے اور نظم وضبط کی پابندی پر یقین رکھنے والے انسان تھے ۔شہید اجلاس میں دھیمی لہجے میں صبر وتحمل کے ساتھ گفتگوکرتے تھے لیکن اپنے موقف پر آپ کا رویہ ہمیشہ غیر لچکدار رہا۔آپ کو دوسرے سنگت اجلاس میں بات بات پر بائیکاٹ کرنے پرتنقید کا نشانہ بناتے تھے لیکن آپ اس عمل کو جمہوریت کا حسن قرار دیاکرتے تھے ۔آپ کو ساتھی جھد کاروں سے انتہائی محبت تھی لیکن پارٹی ڈسپلن کے معا ملے میںذاتی دوستی خاطر میں نہیں لایا کرتے تھے ۔ جب بی ایس او (متحدہ ) کے سابق چیئر مین ڈاکٹر امداد ‘ ڈاکٹر اللہ نذر کی بازیابی کے حوالے سے کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے تو اس سے اظہار یکجہتی کے لیے خضدار سے کراچی تک پیدل لانگ مارچ کیا ۔آپ مضبوط اعصاب کے مالک تھے جس کاانداز اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ طویل پیدل سفر کے باوجود کراچی میں بھوک ہڑتالی کیمپ میں پہنچ کرتادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے اور اس وقت تک اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھی جب ڈاکٹر امداد نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی ۔اُن کی شہادت سے بلوچ نیشنل موومنٹ ایک مخلص اور انقلابی سوچ رکھنے والی قیادت سے محروم ہوگئی ہے لیکن اُن کی قربانی آنے والی نسلوں او ر پارٹی کےجھدکاروں کے جذبات کو ہمیشہ تروتازہ رکھنے کا باعث بنے گی ۔بی این ایم اس شہادت پر شہید کو سر خ سلام قوم اور جھدکارسنگتوں کو مبارک باد پیش کرتی ہوئی اس عزم کو دہراتی ہے کہ قربانیوں کا تسلسل جاری رہئے گا ۔

رسول بخش مینگل کو 23اگست کی شام ایف سی کے اہلکاروں نے درجنوں افراد کی موجودگی میں اوتھل کے علاقے وایارو سے اغواءکرکےشہید کردیا

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے ۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے جونیئر جوائنٹ سیکریٹری رسول بخش مینگل کو 23اگست کی شام ایف سی کے اہلکاروں نے درجنوں افراد کی موجودگی میں اوتھل کے علاقے وایارو سے اغواءکر کے لاپتہ کرنے کےبعد نہایت بے رحمانہ طریقے سے تشدد کے بعد شہید کردیا ہے۔ ا ن کی میت اغواءکی جگہ سے چالیس کلومیٹر دور بیلہ کے علاقے ویلپٹ گنداچہ میں قلندری ہوٹل کے قریب درخت سے لٹکی ہوئی ملی ۔ان کی شناخت آسان بنانے کے لیے فورسز نے ان کا شناختی کارڈ گلے میں لٹکایا ہواتھا ۔شہید کی جسم کو فوجی بوٹوں سے روندھے جانے‘پکڑ سے گوشت نوچنے کے نشانات تھے اور تیز دھار آلہ سے جسم پر جگہ جگہ بی ایل اے اور بی این ایم مرد ہ باد لکھا گیاتھا ۔ واقعہ کے ردعمل میں بلوچ قوم کو پرامن رہنے کی اپیل شہید کے خون سے غداری ہے بلوچ قوم قابض ریاست اور اس کے گماشتوں کے خلاف بھر پور نفرت کا ا ظہار کرئے ۔ہمارے ردعمل کو واضح ،منظم اور منصوبہ بندی کے تحت ہونا چاہئے ۔دشمن کو جتانا ہو گا کہ ہم اپنے رہنماﺅں کی لاشوں کو خاموشی سے وصول نہیں کریں گے اور نہ ہی یوم سیاہ مناکر ماتم کیا جائے گا شہداءکی شہادت پر یوم سرخ مناکر ان کی شہادت کو تحریک کے لیے ایندھن بنانے کے فلسفے پر عمل کرنا چاہئے ۔ شہادت میں ملوث قابض فورسز کے افسران بیلہ میں تعینات ہیں۔ بی این ایم کی قیادت کو ٹارگٹ کر کے قتل کرنے کا فیصلہ پاکستا ن کے پنجابی مقتدرہ نے اعلی سطح پر کیاہے ۔شہید رسول بخش کی شہادت شہید غلام محمد بلوچ ‘شہید شیر محمد ، شہید لالہ منیر اور شہیدبراھیم صالح کی شہادت کا تسلسل ہے ۔پاکستانی دہشت گردفورسزاپنے ان واضح وحشیانہ اقدام سے بی این ایم کی قیادت کو خطرناک انجام سے ڈرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ان کے گلے میں شناختی کارڈ لٹکا نے کامقصد یہی ہے کہ بلوچ قوم دوست قیادت کو پیغام دیا جائے کہ اگر انہوںنے تحریک آزادی کا راستہ نہیں چھوڑا توان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیاجائے ۔ بی این ایم کی طرف سے دشمن کو واضح جواب ہے کہان کے ریاستی غنڈہ گردی اور وحشیانہ حرکتیں آزادی کے کارروان کو نہیں روک سکتیں یہ ایک شعوری فیصلہ ہے بلوچ آشوبی جھدکاروں کے جسم پر تشدد سے ان کی روح کو سکون ملتی ہے ۔بلوچ قائدین اپنی شہادتوں سے دنیا کو پاکستان کے بالادست پنجابی فورسز کاگھناﺅنا چہرہ دکھارہے ہیں جوکہ بلوچ وسائل اور زمین پر قبضے کے لیے غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کررہاہے۔ پاکستان جتنی ننگی جارحانہ حرکتیں کرئے گا تحریک آزادی اتنی ہی زیادہ مضبوط ہوگی ۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے جونیئر جوائنٹ سیکریڑی رسول بخش مینگل کی شہادت پر بلوچ نیشنل فرنٹ کے جنرل سیکریٹری عصاءظفر نے بلوچستان بھر میں تین دن کی شٹر ڈاﺅن

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے جونیئر جوائنٹ سیکریڑی رسول بخش مینگل کی شہادت پر بلوچ نیشنل فرنٹ کے جنرل سیکریٹری عصاءظفر نے بلوچستان بھر میں تین دن کی شٹر ڈاﺅن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دی ہے ۔انہوں نے کہاہے کہ رسول بخش مینگل کی شہادت بلوچ قومی تحریک آزادی کے لیے ہے ان کی قربانی کو مشعل راہ بناتے ہوئے منزل کی طرف پیش قدمی جاری رکھیں گے ۔ریاست اور اس کے وحشی فورسز بلوچ قیادت کو نشانہ بناکر تحریک آزادی سے دستبرداری کے لیے دباﺅ ڈالنا چاہتے ہیں ۔سنگت کی شہادت غیر متوقع واقعہ نہیں تحریک سے وابستہ ہر فرد غیر مہذب ریاست سے اس سے بھی زیادہ وحشیانہ عمل کی توقع رکھتاہے ۔بلوچ صدیوں سے اپنی قومی آزادی کے لیے قابض قوتوں سے لڑتے آرہے ہیں شہادتیں راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں بلکہ مزید استحکام اور منظم انداز میں جدوجہد کو آگے بڑھانےکے لیے شہہ دینے کے باعث ہیں ۔

Monday, August 24, 2009

رسول بخش مینگل کو اوتھل سے پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 23اگست کے شام عصر اور مغرب کے درمیان اغواءکر کے لاپتہ کردیاہے

کوئٹہ (پ ر) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی جونیئرجوائنٹ سیکریٹری جنرل رسول بخش مینگل کو اوتھل سے پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 23اگست کے شام عصر اور مغرب کے درمیان اغواءکر کے لاپتہ کردیاہے ۔بی این ایم کے رہنماءخضدار کے شہری ہیں اوتھل میں ایک زمین کی تصفیہ کے لیے گئے تھے جہاں سے اغواءکرلیے گئے۔ سادہ لباس والے اغواءکنندہ اہلکاروں کے ساتھ ایف سی والے بھی تھے ۔اغواءسے لے کراب تک ان کے متعلق معلوم نہیں کہ انہیں کہاں رکھا گیاہے ۔بی این ایم کے مرکزی دفتراطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ بی این ایم کے مرکزی جونیئر جوائنٹ سیکریٹری جنرل کا اغواءبی این ایم کے خلاف ریاستی دہشت گردانہ اقدام کی کڑی ہے ۔29جون 2009کو خضدارسے ہی بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبرڈاکٹردین محمد بلوچ کو بھی خفیہ اداروں کے اہلکاروں اغواءکرکے لاپتہ کرچکے ہیں ۔ ریاست کے پنجابی مقتدرہ کی طرف سے پارٹی کے تمام سینئرممبران کو قتل اور اغواءکیے جانے کا خدشہ ہے ۔ قبل ازیں بھی بی این ایم کے مرکزی صدرشہیدغلام محمد بلوچ سمیت درجنوں کارکنان کو پاکستان کے خفیہ ایجنسیوں نے اغواءکر کے اپنے خفیہ عقوبت خانوں میں ماورائے عدالت قیدکر کے لاپتہ رکھا تھا جہاں انہیں شدید جسمانی اور ذہنی اذیتت دی گئی لیکن بی این ایم کے کارکنان اورقائدین ان اذیت ناک عقوبت خانوں سے بازیاب ہونے کے بعدبھی بلوچ قومی تحریک سے وابستہ رہے۔ بی این ایم کے کارکنان کے عزم اورحوصلے سے دشمن اعصابی تناﺅ کا شکارہے اب ریاست نئی حکمت عملی کے تحت اپنے دہشت گردانہ اقدام کا دائرہ بڑھا رہیہے اببلوچستان کے گھرگھرمیں بی این ایم کے کارکنان کو تلاش کرکے ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کیے جارہے ہیں جب کہ قائدین کو اغواءکر کے مفلوج کرنے اورٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کرنے کاارادہ کیا گیاہے ۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائدین اور کارکنان اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ہرگز اپنی قومی آزادی کی تحریک سے دستبردار نہیں ہوں گے۔رسول بخش اور ڈاکٹردین محمدکی قربانیاں بی این ایم کے جدوجہد کو منزل تک پہنچانے کے لیے ایندھن کا کام کریں گی ۔موجودہ حالات میں بیرون وطن مقیم دوستوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں انہیں بلوچستان میں جاری ظلم وستم کے ہرایک واقعے کو عالمی میڈیا اورانسانیت دوست ممالک کے سامنے لانا چاہئے تاکہ دنیا پاکستان اور ایران کے انسانیت کے خلاف جاری دہشت گردانہ اقدام سے آگاہ ہو۔

Thursday, July 30, 2009

بلوچستان میں ایف سی راج لگاکر قابض ریاست نے بلوچستان کی مقبوضہ حیثیت کی تصدیق کی ہے

۔کوءٹہ ( پ ر)نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ بلوچستان میں ایف سی راج لگاکر قابض ریاست نے بلوچستان کی مقبوضہ حیثیت کی تصدیق کی ہے ۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ او ر دیگر بلوچ رہنمائوں کا ماورائے عدالت ریاستی خفیہ تنظیموں کے ہاتهوں اغواء پر عالمی برادری کو متوجہ ہونا ہوگا۔ ڈاکٹر دین اور دیگر لاپتہ افراد کے معاملے پر آج کوئٹہ میں شٹرڈائون ہڑتال کی جائے گی۔ ایف سی ایک غیر مہذب اور وحشی فورس ہے جوتمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکهتے ہوئے بلوچ عوام میں خوف ہراس پهیلانے کے لیے بلاوجہ جامہ تلاشی اور ناکے لگاکر اپنا رعب جمانے کی ناکام کوشش کررہی ہے ۔ایف سی کی طرف سے صحافیوں اور پروفیسرز جیسے مقد س شعبوں سے تعلق رکهنے والے افراد کے ساته بدتمیزانہ رویہ بلوچ قوم کے ساته قابض حکمرانوں کے رویے کی عکاسی کرتا ہے ۔قوم حالات کا گہرائی سے جائزہ لے ایف سی کے ظلم وستم عارضی اور اپنے ہاته سے نکلتے بلوچستان کواپنے دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے قبضے میں رکهنے کی آخری کو شش ہے۔ بلوچ سر مچار اور سیاسی قیادت قومی اور بین الاقوامی حالات کا مکمل ادراک رکهتے ہوئے قابض ریاست کے جابرانہ اقدامات کے مقابلے کے لیے موثر حکمت عملی رکهتے ہیں۔ موجودہ حالات صبر آزما اور کهٹن ضرورہیں لیکن مایوس کن ہرگز نہیں ۔بلوچ قوم نہ کمزور ہے نہ ہی قیادت سے محروم کسی ایک یا چند سو لوگوں کو پکڑنے اور مارنے سے بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو روکنے کا خواب ان کی دیوانگی ہے ۔ایف سی بچوں کے سروں سے شہداء کی تصاویر والی ٹوپیاں اور موبائلوں سے تصاویر تو بآسانی نکال سکتی ہے لیکن بلوچ شہداء نے قوم کو آزادی کا جو عظیم مقصد دیاہے اس سے پیچهے نہیں ہٹا سکتی ۔

تحریک حکمت عملی کے تحت آگے بڑهتی ہے ہماری تحریک کامیاب اور بہتر طریقے سے آگے بڑهی ہے ،عصاء ظفر

کراچی (پ ر ) تحریک حکمت عملی کے تحت آگے بڑهتی ہے ہماری تحریک کامیاب اور بہتر طریقے سے آگے بڑهی ہے ،مختلف مراحل سے گزر کر ریاست کو اخلاقی شکست سے دے چکے ہیں اب صرف عملی شکست دینا رہ گیاہے ،بہادر ی دشمن کےبندو ق کو سینے پہ رکهنےمیںنہیںبلکہ اس کی رخ موڑنے میں ہے، دنیاکی غلامی کرنے نہیں اس سے رشتے جوڑنے کی بات کرتے ہیں آج کی دنیا میں امریکہ ،یورپی یونین اور روس کے کردار سے انکار نہیں لیکن ان کی حمایت کے عوض غیرت کا سودانہیں کریں گے ۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کےقائمقام صدر عصاء ظفر نے یہاں کراچی دمگ ( ریجن )کے ورکر کنونشن سےخطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستا ن کی صورتحال ایک فیصلہ کنمرحلے میں داخل ہوگئی ہے ریاست نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے جسے دیکهتےہوئے ہمیں بهی اپنی حکمت عملی میں معروضی حالات کے مطابق تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔ان صورتحال میں غفلت نقصان ہوگا ۔کسی کے خوف سے تحریک کو نہیںسمیٹ سکتے آگے بڑهنا ہو گا۔ریاست ہم سب کو قتل کرسکتی ہے باقی رہنے والےتحریک کو ذمہ دارانہ طریقے سے آگے بڑهائیں اور پر عزم رہیں ان مراحل سےگزرے تو منزل قریب ترہوگی ۔ریاست نے محسوس کیا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کمزور نہیں اس لیے اس کے خلاف بهر پور قوت استعمال کی جارہی ہے ایران اورپاکستان بلوچوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کررہے ہیں او ر تحریک کو مختلف حوالوں سے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کبهی اس پر انتہا ء پسندی اورکبهی مذہبی دہشت گردی کا لیبل چپکا یا جاتاہے ۔یہاں جب تحریک میں تیزیآتی ہے تو پاکستان بهارت میں گڑ بڑ پیدا کرتا ہے ۔افغانستان میں صدیوں سےبلوچ آباد ہیں ان کے رشتے اور ہمدردیاں یقینابلوچ ، بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک کے ساته ہیں لیکن انہوںنے کبهی بهی کسی بهی دور میںافغانستان کے لیے مسائل پیدا نہیں کیے ۔نوشکی میں کوئی طالبان نہیں بلوچ تحریک کو کچلنے کے لیے پاکستان جهوٹا پروپیگنڈہ کررہاہے ۔سعودی عرب ،پاکستان اور سری لنکا نے جس طرح اپنے دیگر ہمنوائوں سے مل کر تامل ٹائیگرز کے خلاف مشترکہ کارروائی کی تهی پاکستان بهی بلوچ کشی کے لیے اسیطرح کی مدد کاخواہاں ہے ۔ڈرون طیاروں کے حصول کی کوشش بلوچوں کو نشانہ بنانے کے لیے کی جاری ہے ۔اس موقع پر پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قاضی داد محمد، سی ممبران حاجی رزاق اور شبیر نور بهی موجود تهے ۔ورکرکنونشن میں تنظیم اور تنظیم کی اہمیت ، بلوچستان کی موجودہ صورتحال اورہماری ذمہ داریاں ، سفارشات ، تنقیدی جائزہ اور آئندہ کا لاءحہ عمل کےایجنڈے زیر بحث آئے ۔ان ایجنڈوں پربات کرتے ہوئے شرکاء نے کہاکہ بی این ایم ووٹ اور لوٹ کی تنظیم نہیں خون مانگتی ہے، ہمیں پکاررہی ہے اس کاراستہ آسان نہیں ککٹهن اور وقت طلب ہے نظم وضبط کی پابندی نہ کی گئی توگمراہ ہوں گے ۔جوممبران بیان بازی اور ذہنی عیاشیانہ کیفیت میں مبتلا ہیںان کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا اور ذہن سازی کے لیے پارٹی کے سینئر ممبراناور قائدین اپنی قائدانہ صلاحیتیں بروئے کار لاءیں ۔ورکر کنونشن میںمتفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیاکہ پارٹی کو مزید فعال اور منظم بنانے کےلیے ساءنسی او ر علم بنیادوں پر تنظیم سازی کی جائے گی اور کراچی میںپارٹی آئین میں درج تنظیمی ڈهانچے کی تکمیل کے لیے فوری اقدامات کرکےیونٹ کے سطح پر باقاعدہ اسٹڈی سرکل کرائے جائیں گے ۔

Saturday, July 4, 2009

جنگ آزاد ی کے سر خیل رہنماءاور سالار اول آغاعبدالکریم کی جدوجہد کے تناظر میں سیمنار ہوگا

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکز ی دفتر اطلاعات سے جاری کرد ہ بیان میں کہاگیاہے کہ آج شام چار بجے کوئٹہ پریس کلب کے ہال میں بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے پاکستانی قبضہ گیری کے خلاف مسلح جنگ آزاد ی کے سر خیل رہنماءاور سالار اول آغاعبدالکریم کی جدوجہد کے تناظر میں سیمنار ہوگا جس میں بلوچ دانشور بلوچ قومی جدوجہد کے حوالے سے مقالے پیش کریں گے ۔بیا ن میں کہا گیاہے کہ پاکستانی قبضہ گیری کے خلاف فوری ردعمل کے طور پر آغا عبدالکریم نے بلوچ مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز کرکے بلوچ سر زمین کے مقبوضہ حیثیت کو ثابت کیا ہے ۔اُن کی جدوجہد کو جن کرداروں کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑاوہ آج بھی بلوچ قومی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے سر گرم ہیں ۔سمینار موجودہ حالات کو علمی بنیادں پر سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔

Wednesday, July 1, 2009

سنی تحریک کا بی این ایم کراچی کے کارکن عبدالمطلب کو زدکوب کرنا غیر سیاسی اور اشتعال انگیز عمل تھا

کوئٹہ (پ ر )بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ بلوچ اپنی قومی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ہمارا کسی مذہبی جماعت سے کو ئی جھگڑا نہیں ، سنی تحریک کا بی این ایم کراچی کے کارکن عبدالمطلب کو زدکوب کرنا غیر سیاسی اور اشتعال انگیز عمل تھا ۔کارکنان حالات اور واقعات کا ادراک رکھتے ہوئے غیر ضروری تصادم سے گریز کریں تاکہ ایجنسیوںنے ہمیں ہر مکتبہ فکر سے الجھانے کا جو گھناﺅنا منصوبہ بنایا ہوا ہے وہ ناکام ہو۔ سنی تحریک کو سیاسی پارٹی کے طور پر سیاسی زبان میں سمجھانے کی کوشش کریں گے اگر انہوںنے آئندہ ایسی غلطی کی تو بلوچستان بھر سمیت کراچی کے بلوچ علاقوںمیں بھی ان کے لیے زمین تنگ کی جائے گی ۔بلوچوں کی نسل کشی کے خلاف مذہبی جماعتوںکو پاکستانی ایجنسیاں شہہ دے رہی ہیں سادہ لوح افرا دایجنسیوں کے بہکاوے میں بلوچ تحریک کے آگے رکاوٹ بننے کی غلطی نہ کریں ۔کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچ حریت پسند جماعتوں کے کارکنان احتجاج کے لیے گئے تھے اورانہوںنے پرامن انداز میں قابض ریاست کے خلاف اپنے نفرت کا اظہار کیا تھا ۔سنی تحریک کی مداخلت اور سندھ پولیس کی غنڈہ گردی بلوچوںکے خلاف ریاستی اقدام کے علاہ انسانی حقو ق کی بھی خلاف ورزی ہے ۔پاکستان کی خیر خواہی کے دعویدار جماعتوں کی طرف سے بلوچوں کے خلاف نفرت انگیز اقدامات سے تاثر ملتاہے کہ بلوچ نسل کشی کے عمل میں پاکستان کے تمام عناصر برابر کے شریک ہیں ۔

بی این ایم نے احتجاجی شیڈول کا اعلان کیاہے

کوئٹہ ( پ ر) پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر دین محمد بلوچ ، سینئر ممبر ناکوفیض اور دیگر بلوچ سیاسی کارکنان کے ماورائے عدالت اغواءنماگرفتاریوں اور غائب کیے جانے کے خلاف بی این ایم نے احتجاجی شیڈول کا اعلان کیاہے ۔بی این ایم کے جاری کردہ احتجاجی شیڈول کے مطابق 10جولائی کو خضدار ، آواران ، نال اور مشکے ،17جولائی کوتربت ، پنجگور اور گوادر ، 24جولائی کونوشکی ،دالبندین اور قلات اور 31جولائی کوئٹہ ، قلات اور حب میں شٹرڈاﺅن اور پہیہ جام ہڑتال کیاجائے گاجب کہ 5, 12, 19اور 26جولائی کو بلوچستان بھر اور کراچی پریس کلب کے سامنے ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے ۔تمام ھنکیان کو مرکزی احتجاجی شیڈول کو کامیاب بنانے اور موثر احتجاج کے لیے عوامی رابطے تیز تر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کا ویب سائٹ حکومت پاکستان کی طرف سے بلاک کردیاگیا ہے

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کا ویب سائٹ حکومت پاکستان کی طرف سے بلاک کردیاگیاہے جس کی وجہ سے بی این ایم کی ویب سائٹ تک پاکستان کے زیر انتطام علاقوں میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی رسائی مشکل بن گئی ہے ۔بی این ایم کے دفتر اطلاعات کی طرف سے جاری کردہ بیان میں پاکستانی حکومت کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس عمل کو اظہار رائے کی پابندی قرار دیا گیاہے ۔

Tuesday, June 30, 2009

زرمبش پبلی کیشنز کے کام کو منظم ، موثر اور پارٹی قیادت کے فیصلوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے خصوصی ہدایت

کوئٹہ ( پ ر ) گزشتہ دنوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدر عصاءظفر نے زرمبش پبلی کیشنز کے کام کو منظم ، موثر اور پارٹی قیادت کے فیصلوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے خصوصی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ زرمبش پبلی کیشنز پارٹی کا نشرواشاعتی ادارہ اور اس کے نام سے شائع ہونے والی چیزیں پارٹی کا اثاثہ ہیں ۔پارٹی کسی فرداور غیر متعلق ادارے کوپارٹی کے وسائل ،اداروں کے نام اور افرادی قوت کو استعمال کرتے ہوئے کاروباری مفادات بٹورنے کی ہرگزاجازت نہیں دے گی ۔ انہوںنے واضح کیا کہ زرمبش پبلی کیشنز پارٹی کا پبلی کیشنز ڈیپارٹمنٹ ہے جوپارٹی کے کیے گئے فیصلوں کے مطابق پارٹی ابلاغ کے لیے نشرواشاعت کااہتمام کرتاہے ۔ادارہ پارٹی آئین کے مطابق مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی برائے راست نگرانی میں کام کرئے گا۔پارٹی کارکنان متعلقہ افراد سے معلوم کیے بغیر زرمبش کے نام سے شائع شدہ مواد کو تقسیم کرنے سے گریز کریں ۔زرمبش کی طرف سے شائع ہونے والی چیزیں پارٹی اثاثہ ہیں جن سے حاصل ہونے والے رقوم پارٹی کھاتہ میں جمع کیے جائیں جن کا باقاعدہ حساب کتاب رکھ کر مرکزی کمیٹی میں پیش کی جائے گی ۔پارٹی کو منظم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنے داہرہ کار میں رہے ۔انہوںنے پارٹی کے نام سے چندہ جمع کرنے سے منع کرتے ہوئے کہاکہ پارٹی کے نام سے ماہانہ ممبر شپ فیس اور مخصوص دوزواھان کے علاوہ عام افراد سے کوئی چندہ اکٹھا نہیں کیا جائے ۔انہوںنے واضح کیاکہ اصول وضوابط اور نظم وضبط سے پارٹی کاکوئی فرد بالاتر نہیں ۔بی این ایم انقلابی پیش رفت کی حامل قومی پارٹی ہے پارٹی کے خیرخواہان ایسے عمل سے گریز کریں جو انتشار کا باعث ہوں ۔انہوںنے کہاکہ پارٹی قیادت مکمل طور پر فعال اور متحرک ہے ۔کابینہ سمیت مرکزی کمیٹی کے ممبران کاچناﺅ پارٹی کے مقدس کونسل سیشن نے کیاہے اور مرکزی کمیٹی کے ہراجلاس میں کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں ۔کارکنان آئینی طورپر مرکزی معاملات طے کرنے کے ذمہ دار نہیں البتہ پارٹی کوفعال اور منظم بنانے کے لیے ہرا یک کواپنے داہرہ کار میں ایماندارانہ طور پر پارٹی کے استحکام اور مفاد میں کام کرنا چاہئے ۔

ڈاکٹر دین محمد کا اغواءریاستی دہشت گردی کا تسلسل ہے

کوئٹہ +گوادر( پ ر ) ڈاکٹر دین محمد کا اغواءریاستی دہشت گردی کا تسلسل ہے ، آج پورے بلوچستان کے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے ۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدر عصاءظفر نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر دین محمد کے پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواءکے واقعہ کے ردعمل میں کیا ۔انہوںنے کہاکہ پاکستانی قابض ریاست بلوچوں کے تمام شہری حقوق سلب کر کے اُن سے زرخرید غلاموں سے بھی بدتر سلوک کررہی ہے ۔بلوچوںکے ساتھ قابض ریاست کاسلوک انسانیت کے منہ پر تمانچہ ہے ۔ دنیاکی انسانیت دوست ممالک ماورائے عدالت گرفتاریوں اورریاستی اداروں کے ہاتھوں اغواءکے واقعات کو انسانی حقوق کے پامالی قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجودبلوچوں کے خلاف بدترین ریاستی تشدد اور نسل کشی کے واقعات پر خاموش تماشاہی کا کردار اداکررہے ہیں ۔ریاست بلوچستان میں اخلاقی طور پر شکست کھاچکی ہے اس لیے سماجی اور سیاسی کارکنوںکو اغواءکرکے بلوچوں کو خوفزدہ کرکے تحریک آزادی سے دستبردار کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔قوم ان مظالم کامردانگی کے ساتھ مقابلہ کریں وہ وقت جلد ہی آئے گا کہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی ۔خطے کے حالات اور پاکستان کی صورتحال دن بدن خراب تر ہوتی جارہی ہے اس زمین بوس ہونے والی ریاست کے ساتھ بلوچ اب کوئی امید وابستہ نہ کرئے اس کے پاس بلوچوں کو قتل اور اغواءکرنے کے علاوہ دینے کوکچھ نہیں ۔بلوچ گمنام موت مرنے کی بجائے لڑنے اور باوقار موت مرنے کو ترجیع دیں دنیا اگر بلوچستان پر بلوچ قومی اختیار اور اس کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتی تو بلوچ بھی دنیا کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت نہیں لےسکتے ۔بلوچستان میں خفیہ ایجنسیاں بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت اور پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے نام نہاد قوم دوست جماعتوں کی حمایت سے حریت پسند جماعتوں کے کارکنان کو اغواءکرکے غائب کررہی ہیں ۔درایں اثناءبلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قاضی داد محمد نے کہاکہ ڈاکٹر دین محمد اپنی قوم سے بے لوث محبت کرنے والے قو م دوست ہیں ۔ انہوںنے نامساعد حالات اور ریاست کی طرف سے شدید دباﺅ کے باوجود اپنے تمام تر پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو اپنے قوم کے لیے استعمال ترک نہیں کیا ۔ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے انہیں دوران ڈیوٹی اغواءکر نا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بلوچوںکو کسی بھی حالت میں برداشت نہیں کرتے ۔ ڈاکٹر دین محمد کے اغواءسے بی این ایم کے کارکنان اور بلوچ قوم دوستوں کے حوصلے ہر گز پست نہیں ہوگے یہ جدوجہد منزل کے حصول تک جاری رہے گی ۔کارکنان شہید غلام محمد کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے قربانیوں کو تحریک آزادی کا ایندھن بنائیں ۔

Wednesday, June 24, 2009

یوم تشدد کے موقع پر بی این ایف کی ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیےتیاری کرلیں

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ کارکنان 26جون کویوم تشدد کے موقع پر بی این ایف کی جانب سے ہڑتال کی کال کو کامیاب بنانے کے لیے بھر پور تیاری کرلیں ۔پاکستان نے بلوچوں پر تشدد کے تما م ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں عالمی یوم تشدد کے موقع پر احتجاج کر کے دنیا کو اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کیاجائے گا ۔

بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچ قومی آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کررہی ہے

پلیری +پشکان +جیمڑی (پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچ قومی آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کررہی ہے ، ہم بی ایل ایف یاکسی دوسری مسلح حریت پسند جماعت کے کسی عمل کے جوابدہ نہیں ،ہم کسی ایک گروہ فرد یا کسی خاص مسلح حُریت پسند جماعت کے حامی نہیں بلکہ مسلح جدوجہد کو آزادی کا موثر ترین ذریعہ مانتے ہیں ۔اگر کوئی جماعت بلوچ قومی آزادی کے بارے میں ابہام پید اکرئے تو تحریک کا دفاع ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ہم کسی کی ذات پر کیچڑ نہیں اچھالتے سیاسی زبان میں اپنی مخالفانہ اظہار کرتے ہیں، ہماری تنقید کرنے پر پابندی کی صورت مخالفین پر بھی یہی ضابطہ لاگو ہونا چاہئے ۔ان خیالات کا اظہاربلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدر عصاءظفر نے اپنے گوادر کے دورے میں پلیری ، پشکان اورجیمڑی میںسیاسی کارکنان کے وفود اور عمائدین سے ملاقات میں کیا ۔انہوں نے پلیری میں شہید غلام محمد یونٹ کے قیام کو بلوچ نیشنل موومنٹ کے لیے ایک نمایاں کامیابی قرار دیتے ہوئے کہاکہ آج بی این ایم شہد اءکی قربانیوں اور کارکنان کی انتھک محنت کی بدولت بلوچستان کے ہر گاﺅں اور گدانوں تک پہنچ چکی ہے وہ دن دور نہیں کہ پارٹی ایک مکمل انقلابی جماعت کی صورت اختیا ر کر لے گی ۔انہوںنے کہاکہ ہمیں معلوم ہے ہم نے جس راستے کا چناﺅ کیا ہے اس میں ہمیشہ ریاستی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیے جاسکتے ہیں لیکن ہم زندگی کی آخری سانس تک آزادی بلوچستان کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ہم نہیں کہتے کہ کل بلوچستان آزاد ہوگا اس میں سوسال بھی لگ سکتے ہیں اور چار دن بھی لیکن جدجہد میں تسلسل برقرار رکھنا لازمی ہے ۔بلوچ قومی تحریک ماضی میں قیادت کی غیر مستقل مزاجی اور کمزرویوں کی وجہ سے منظم نہ ہوسکی ۔ماضی کی جدجہد موجودہ تحریک کو بنیاد اور جواز ضرور فراہم کرتی ہے لیکن نواب اکبرخان کی شہادت کے بعد تحریک ہمہ گیرا ور پہلے کی نسبت زیادہ منظم ہوئی ہے ۔انہوں نے جیمڑی اور پشکان میں اپنے لیکچر پروگرام کے دوران کیے گئے مختلف سوالات کے جوا ب میں کہاکہ ہم ہر اُس جماعت سے اتحاد کے لیے تیار ہیں جوکہ قومی آزادی ، بلوچ سر مچاروں کی حمایت اور غیر پارلیمانی طرز سیاست کے شرائط پر متفق ہولیکن ہم کسی ایسی جماعت کے ساتھ ہر گز اتحاد نہیں کریں گے جوکہ پاکستانی آئین اور پارلیمنٹ کی بات کرتی ہے ۔ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت سے اختلاف نہیں رکھتے بلکہ پاکستانی پارلیمنٹ اور جمہوریت کو ڈھونگ سمجھتے ہوئے ان کے ذریعے بلوچ مسئلے کا حل ڈھونڈنے والوں سے متفق نہیں ۔حق خود ارادیت ، آزادی کے مقابلے میں ایک مبہم اور غیر واضح اصطلاح ہے جس کے معنی کسی قوم کواس کی مرضی کے مطابق اپنی اکائی کے انتظامی بندوبست کے حوالے سے آزادانہ فیصلے کااختیار دیناہے لیکن اگر کسی ملک کے آئین اور قانون میں یہ بات نہ ہو تو یہ مطالبہ غیر منطقی لگتاہے اگر ہمیں کل کسی کے پوچھنے پر بتاناہے کہ ہم آزادی چاہتے ہیں توآ ج اس مطالبے میں کیاحرج ہے ۔بلوچ مسئلہ قومی غلامی ہے شہری حقو ق کی پامالی اور حق حکمرانی نہیں ۔بلوچ کو، بلوچ گورنراور وزراءکی صورت کچھ حد تک حق حکمرانی حاصل ہے اصل جنگ اختیار اور حق آزادی کی ہے ۔خان قلات کا تحریک میں کردار واضح نہیں بلوچ کوکسی عدالت سے آزادی ملنے کی توقع نہیں نہ ہی یہ جنگ کسی کے سردار وخان کی حکمرانی کی بحالی کے لیے ہے۔ بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کررہی ہے جس کے لیے ہمیں اپنی طاقت میں اضافہ کرکے جدوجہد کو منظم انداز میں آگے بڑھاناہوگا۔

Friday, June 19, 2009

بغاوت کا مقدمہ بلوچ قومی سپوتوں کے خلاف ریاست کا دیرینہ حربہ ہے

دشت +گوادر ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ گوادر کے جنرل سیکریٹری لالہ حمید اور بل کے ڈپٹی آرگنائزر منصور بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بی این ایم کیچ کے رہنماءشوکت بلیدی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بلوچ قومی سپوتوں کے خلاف ریاست کا دیرینہ حربہ ہے ۔ بی این ایم کے کارکنان اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ہر گزمرعوب نہیں ہوں گے بلکہ جدوجہد پارٹی کے اعلیٰ ترین ہدف کے حصول قومی آزادی تک جاری رکھی جائے گی ۔ ریاست کے دہشت گردانہ اقدمات کے خلاف بہادر بلوچ کے فرزند سیسہ پلائی دیوار کی ماند کھڑے ہیں بغاوت کے مقدمے جدوجہد آزادی میں کوئی معنی نہیں رکھتے شہادت کے جذبے کے تحت کاروان میں شامل ہوئے ہیں ۔

مرید بگٹی اور حضور بخش کی شہادت بلوچ قوم کے لیے سانحہ مرگاپ کی طرح کا ایک اور سانحہ ہے

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ مرید بگٹی اور حضور بخش کی شہادت بلوچ قوم کے لیے سانحہ مرگاپ کی طرح کا ایک اور سانحہ ہے جس طرح نہتے بلوچ رہنماﺅں کو اغواء کر کے شہید کردیا گیاتھا ا سی طرح سکرنڈ میں شہید مریڈ بگٹی کی رہائش گاہ پر شب خون مارکے انہیں کزن سمیت شہید کردیا گیا۔ حملے میں قابض ریاست کے تنخواہ خوروں نے معصوم بچیوں اور عورتو ں کو بھی نشانہ بنایا۔پاکستان ریاستی دہشت گردی کے تمام حدود پھلانگ چکاہے اور بلوچ قوم بھی آزادی پانے کے لیے اپنی بھر پور قوت کے ساتھ دشمن کے خلاف جدوجہد کررہی ہے ۔ قوم پر دن بہ دن شہدا ءکی شہادتوں کا بدلہ لینے کی ذمہ داریاں بڑھتی جارہی ہیں یہ بدلہ صرف آزاد بلوچستا ن کی صورت ہی لیا جاسکتا ہے ۔ بلوچ قوم کے ہزار ہاں فرزند اپنی جوانیاں قو م کے خوشحال مستقبل پر خوشی خوشی نچھاور کررہے ہیں قوم بھی قربانیوں کا احساس کرتے ہوئے آزادی کے کاروان میں شامل لوگوں کے ہاتھ مزید مضبوط کریں ۔ شہد اءکے خون نے حق خودرادیت، حق حاکمیت ، صوبائی خود مختاری اور آزادی کے فرق کو واضح کردیاہے کہ جوآزادی کے طلبگار ہوتے ہیں اُن کے راہوں میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور اُن کوبے دریغ قتل کیا جاتاہے ۔ قابض ریاست اپنی گرفت کمزور دیکھ کر ریاستی دہشت گردی میں اضافہ کررہاہے ۔ پاکستان کے پنجاب نواز خفیہ ادارے بلوچ گوریلاحریت پسندوں کی حکمت اور دانش کے آگے ناکام ہوچکے ہیں جس کو چھپانے کے لیے وہ حریت پسند سیاسی جماعتوں کے نہتے کارکنان کو آسان شکار سمجھ کر اغواءکر کے غائب کررہے ہیں ۔ پاکستانی ایجنسیاں اپنی ناکامی چھپانے کے لیے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ بلوچ نیشنل فرنٹ میں شامل جماعتوں کے کارکنان ہی گوریلا سر گرمیوں میں ملوث ہیں لیکن اپنے اس غیر دانشمندانہ دلیل سے وہ اب مزید لوگوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے بلوچ قوم اتنی نادان نہیں ہے کہ اپنی تمام طاقت ایک جگہ محدود رکھ کر دشمن کا کام آسان کردے سیاسی کارکنان سیاسی محاذ سنبھالے ہوئے ہیں تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ بلوچ کی جدوجہد خالصتاً سیاسی بنیادو ں پر ہے۔ پاکستانی ریاست سوات میں طالبان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں حاصل عالمی ہمدردی سے ناجائز فائدہ اُٹھاکر دہشت گردی کے نام پر جنگ کی آڑمیں بلوچوں کے خلاف اپنی جارحانہ کاروائیوں میں شدت لانا چاہتا ہے ۔پاکستان کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا مقصد بلوچ مسلح حُریت پسند وں کو اشتعال دلا کر اپنے تیارکردہ میدان جنگ میں لڑانا ہے جس میں و ہ پے درپے اشتعال انگیز کاررائیوں کے باجود ناکام ہوکر اپنا غصہ سیاسی کارکنان پر نکال رہاہے تاکہ بلوچ سر مچاروں کی حامیوں میں کمی لائی جاسکے ۔

Tuesday, June 16, 2009

بی آرپی نوشکی کے رہنماﺅں کی اغواءنماگرفتاری اور بازیابی کے بعد اُن سے دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کا دعویٰ

کوئٹہ ( پ ر ) بی آرپی نوشکی کے رہنماﺅں کی اغواءنماگرفتاری اور بازیابی کے بعد اُن سے دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کا دعویٰ ریاستی دہشت گردی ہے۔ریاست بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد سے بھوکلا کر بلوچ نیشنل فرنٹ کے کارکنان کو ریاستی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے اغوءکر کے قتل کررہاہے ۔دہشت گردی کے عالمی امداد اور امریکہ کے دیئے ہوئے ہتھیاروں سے فائدہ اٹھاکر پنجاب کی زیرکمان پاکستانی فورسزبلوچستان میں بھی فوجی جارحیت شروع کرناچاہتی ہیں ۔ڈیرہ بگٹی ، کوہلو، کاہان میں جاری کشت وخون میں اضافہ کیا گیاہے ۔مشکے میں فوجی کارروائیوں کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔عالمی طاقتیں ایران سے غیر جمہوری انتخابات کی وضاحت طلب کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ایران کے ہاتھوں جاری بلوچ نسل کشی کا بھی نوٹس لیں ۔یہ باتیں بلوچ نیشنل موومنٹ کے دفتر اطلاعات سے جاری کردہ ایک بیان میں کی گئی ہیں ۔بیان میں کہا گیاہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں پنجاب کے مفادات کے لیے بلوچ قوم دوست سیاسی فرنٹ بلوچ نیشنل فرنٹ سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے کارکنان کو اغواءکرکے غائب کررہی ہیں ۔بین الاقوامی دباﺅاور اندرونی طور پر ان اغواءکاریوں کی تردید کے باوجود بڑی تعداد میں بلوچ مرد ، خواتین اور بچوں کو اٹھا کر غائب کردیا گیاہے اور یہ سلسلہ جاری ہے گزشتہ ایک ہفتے سے شدید احتجاج اور ہنگامہ خیزی کے باوجود ایجنسیاں روزانہ بلوچ سیاسی کارکنان کواغواءکرکے غائب کررہی ہیں ۔اس مسئلے پر عالی برادری کو فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے۔ پاکستان دہشت گردی کے نام پر حاصل کردہ عالمی ہمدرردی کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بلوچوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔پاکستان کی طرف سے ڈرون طیاروں کا مطالبہ بھی اسی تناظر میں ہے تاکہ وہ بلوچوں کی نسل کشی کے اپنے منصوبے کو مکمل کر سکے ۔بلوچوں کو گزشتہ کئی صدیوں سے دودرندہ صفت ریاستوں ایران اور پاکستان کی طرف سے نسل کشی کا سامناہے ۔ایرانی فورسز بلوچوں کو قتل کے بعد ان کی خواتین کو حراساں کرنے کے لیے گرفتار کررہاہے۔ایرانی سر کار کی طرف بانک زری ناروی کی گرفتاری اور سے اذیت خانوں میں رکھنا انسانیت کی تذلیل ہے ۔

Sunday, June 14, 2009

زرمبش کے لیے موصولہ تحریروں کی کمپوزنگ شروع

وئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ بی این ایم کے ترجمان زرمبش کے لیے موصولہ قابل اشاعت تحریروں کی کمپوزنگ شروع کی گئی ہے ۔اس سلسلے میں بی این ایم کے تمام ھنکینان کے سیکریٹری اطلاعات اور دیگر ذمہ داران کو خصوصی ہدایت کی جاتی ہے کہ زرمبش کی اشاعت کو بروقت بنانے کے لیے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے علاقے کے لکھاریوں سے زرمبش کے دیے گئے موضوعات پر تحریریں جمع کرکے مرکزی سیکریٹری اطلاعات یا زرمبش کے دیگر ذمہ داران کو ارسال کریں ۔زرمبش کے آنے والے شمارے کے لیے سانحہ مرگاپ ، آزادی کا مفہوم ، انقلابی رجحانات ، تنظیم اور نظم وضبط ، انقلابی کردار ، حق خوارادیت اور آزادی کا فرق ، مثالی انقلابی کارکنان اور پارٹی کے موضوعات پر تحریریں شامل ہوںگی ۔واضح رہے کہ زرمبش میں شائع ہونے والی تحریریں بلوچی اور براہوی زبان میں ہوں گی اس اعتبار سے بلوچی میں موضاعت اس طرح ہوں گے ۔’ ’ مرگاپ ءِ شھید ، آجوئی ءِ بزانت ،آشوبی تب ءُ پگر، گل ءُ گلکاری ،آشوبی کرد، حق خوارادیت ءُ آجوئی ءِ میان ءَ گستائی ، آشوبی جھدکار ، پارٹی “ ۔

ماہتاک سچکان گوادر کا سانحہ مرگاپ کے حوالے سے خصوصی شمارہ

گوادر ( پ ر ) بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری قاضی داد محمد نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ ماہتاک سچکان گوادر کا سانحہ مرگاپ میں شہید ہونے والے بلوچ شہدا ءکے حوالے سے خصوصی شمارہ قابل تعریف ہے ۔شمارے میں شہداءکے متعلق اہم معلومات اور نگارشات شامل ہیں۔ بی این ایم کے کارکنان حوالہ کے طور پر شمارے کی کاپی محفوظ رکھیں ۔امید ہے کہ دیگر ادارے بھی ماہتاک سچکان کی تقلید کرتے ہوئے قومی وسوچ کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار اداکریں گے ۔

Thursday, June 11, 2009

جان محمد دشتی پر حملے سے بلوچ سر مچار لاتعلقی کا اظہار کر چکے

گوادر ( پ ر ) جان محمد دشتی پر حملے سے بلوچ سر مچار لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ براھمد غ نے واقعے کی مذمت کی تھی ،اس واقعے سے جوبھی تنظیم خود کو جوڑ رہاہے اس کا یقیناً معرو ف حریت پسند جماعتوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ جان محمد دشتی پر حملے کی مثال دے کر انور ساجدی کو دھمکی دینے والے عناصر ہر گز وہ نہیں ہوسکتے جوکہ قومی اتفاق رائے سے بلوچ قومی آزادی کے لیے برسر پیکار ہیں ۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قاضی داد محمد نے اپنے ایک بیان میں کیا ۔انہوںنے کہاکہ بلوچ سر مچاروں کی جدوجہد بلوچ قومی آزادی کے لیے ہے وہ سیاسی داﺅ پیچ سے واقف اور معاملہ فہم لوگ ہیں ۔وہ اخبارات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کو قتل کی دھمکی دینے کی غلطی ہر گزنہیں کرسکتے ۔اگرکوئی نادان اس عمل کو بلوچ قوم کی خدمت سمجھتے ہوئے کرررہاہے تواس سے گزارش ہے کہ وہ اس طرح کی کسی حرکت سے قبل اس کے نتائج کا اچھی طرح ادراک کرلیں۔ تامل ٹائیگرز کی شکست کی سب سے بڑی وجہ اختلاف رائے رکھنے والے پڑھے لکھے طقبے کو معمولی باتوںاور نامکمل معلومات کی بنیاد پر قتل کرنا بنی ۔کسی اخبار میں شائع ہونے والے خبر یا مضمون کی مندرجات سے اتفا ق نہ کرنے کی صورت ہم سیاسی اور اخلاقی طور پر اس کی مذمت اور اسے قائل کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیںیقیناً بلوچ سر مچار بھی سیاسی محاذ می کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے مزاحمتی جماعتوں کی اہلیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔

زرمبش پبلی کیشنزکے اعلامیہ

کوئٹہ ( پ ر ) زرمبش پبلی کیشنزکے اعلامیہ میں کہاگیاہے پارٹی ابلاغ کو تیزکرنے کے لیے مزید دوبلاگ پبلش کیے گئے جن میں سے ایک بلاگhttp://bnmpresident.blogspot.comمیں پارٹی صدر کے بیانات تقاریر اور سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات جب کہ http://thebnm.blogspot.comمیں پارٹی سے متعلق بیانات ہیں جوکہ نیوز فیڈ کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

ں خضدار سے مرکزی ترجمان کے نام پر شائع ہونے والے بیان سے لاتعلقی کااظہار

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں گزشتہ روز اخبارات میں خضدار سے مرکزی ترجمان کے نام پر شائع ہونے والے بیان سےلاتعلقی کااظہار کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ مذکورہ بیان کے مندرجات سے ہٹ کر اس بات کی سختی سے تردید کی جاتی ہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ میں آئینی طور پر مرکزی ترجمان کاکوئی عہدہ نہیں اور نہ ہی پارٹی کے کسی فیصلے کے تحت کسی ممبر کویہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔پارٹی آئین کے مطابق صرف پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات صدر اور سیکریٹری جنرل کی مشاورت سے پالیسی بیان جاری کرسکتے ہیں ۔ان کے علاوہ کسی کوبھی پارٹی کے حوالے سے بیانات جاری کرنے کی اجازت نہیں ۔اس ضمن میں اخبارات وجرائد کے مدیران اور نیوز ز ایڈیٹرز سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بغیر تصدیق کے بیانات شائع نہ کریں ۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی بیانات صرف کوئٹہ سے جاری کیے جاتے ہیںجس کے لیے پارٹی کا ای میل ایڈریس b.n.movement@gmail.comاستعمال ہوتا ہے جس کا پاس ورڈ صرف دفتر اطلاعات میں کام کرنے والے ذمہ داران کو معلوم ہے پارٹی کی مذکورہ میلنگ ایڈریس پارٹی کی ویب سائٹ www.thebnm.co.ccپر بھی موجود ہے ۔علاوہ ازیں پارٹی کے دفتراطلاعات سے جاری شدہ تمام بیانات فوری طورپر پارٹی کی ویب سائٹ یا بلاگ http://thebnm.blogspot.comپر پبلش کیے جاتے ہیں ۔

بلوچ اپنی سر زمین کی آزادی کی بحالی کا خواب نہیں دیکھ رہے

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتراطلاعات سے جاری کرد ہ بیان میں کہاگیاہے کہ بلوچ اپنی سر زمین کی آزادی کی بحالی کا خواب نہیں دیکھ رہے بلکہ قابض قوتوں کے خلاف ہر محاذپر برسرپیکار ہیں ۔ اب دنیا کی کوئی طاقت آزاد بلوچستان کے قیام کو نہیں روک سکتی ۔خونی سرحدوں کی تشکیل نو دنیاکے تمام امن پسند ممالک کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ جلد ہی برطانہ اور امریکہ بھی پاکستان کی پشت پناہی چھوڑنے والے ہیں ۔دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی عالمی جنگ ایک ڈھونگ کے سواءکچھ نہیں دنیاکے امن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ قومی غلامی ہے ۔پاکستان میں اب مزید ایک وفاق کی حیثیت سے برقرار رکھنی کی کوششیں تمام تر طاقت آزمائی کی باوجود کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ بلوچ کی جنگ پاکستانی بندوبست میں بسنے والے دیگر اقوام کے خلاف نہیں پنجابی بالادستی کے خلاف ہے ۔ پشتون اور سندھی عوام بلوچ جدوجہد کے تمام نکات سے متفق ہیں۔ پنجابی اپنی متعصبانہ سوچ کی وجہ سے ان اقوام پر حکومت کرنا چاہتے ہیں جس کی اب مزید گنجائش نہیں رہی ۔تمام محکوم اقوام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لیے باہمی اختلافات کوبالائے طاق رکھ کر اپنے اصل دشمن پنجابی کے خلاف مشترکہ محاذ کھول کر جدوجہد کریں ۔پنجابی کا رویہ سب کے ساتھ یکساں رہا ہے ۔انہوںنے سندھ کی سرخیز زمین اور ثقافت پر یلغارکر کے سندھیوں کی بقاءکو خطرات سے دوچار کردیا اور پشتون کی ایک نسل کو مذہبی انتہاءپسندی کی بھٹی میں جھونک کر تباہ کردیاہے ۔ وسط ایشیاءکی وہی ریاستیں دہشت گردی آماجگاہ بن چکی ہیں جہاں محکوم اقوام موجود ہیں ۔پاکستان اور ایران دنیابھر میں ہونے والی ریاست دہشت گردی کو مدد فراہم کرنے والے عالمی دہشت گردوںکے سر غنہ ہیں ۔دونوں ریاستوں کی ایجنسیاںدہشت گردانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے مخصوص اہداف حاصل کرنے کوشش کررہے ہیں ۔ ایران کے زیر انتظام بلوچوںنے کئی دہائیوں تک ریاست کے اندر اپنے سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کی جسے ایرانی رجیم نے پاکستا ن کے پنجابی رجیم کی طرح ناکام بنایاد۔ایران میں ہردن بلوچوں کو پھانسی پر چڑھایا جارہاہے ۔بلوچ حقو ق کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنماﺅں کے رشتہ داروں کو چن چن کر پھانسی دے کر قتل کیا جارہاہے خصوصاً بلوچ علماءاور نوجوان طلباءکے قتل عام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیاہے ۔بلوچستان کی عظیم سر زمین کو پاکستان اور ایران نے غیر فطری حدبندیوں میں تقسیم کیا ہوا ہے وہ چاہتے ہیں کہ بلوچوں کو بھی تقسیم کیا جائے جوکہ ممکن نہیں بلوچ کے لیے جبری سرحدیں کوئی معنیٰنہیں رکھتیںپاکستان اپنے زیر قبضہ بلوچستان کے بلوچوں کو بھی قتل کے لیے ایران کے حوالے کررہاہے ۔گزشتہ دنوں نے ایرانی رجیم نے جن دوبلوچ نوجوانوں رضاقلندر زئی اور غلام حیدر رئیسانی کو پھانسی دے کر شہید کیا تھا انہیں گزشتہ سال جون 2008کو پاکستان نے گرفتار کر کے پاکستانی شہریت کے ثبوت ہونے کے باوجودایران کے حوالے کردیاجسے قوم دوست جماعتوں کے خدشات کے مطابق پھانسی دے کر عدالت کے ذریعے قتل کردیا گیا۔ ایرانی گجر پنجابیوں سے کئی زیادہ وحشیانہ طریقے سے بلوچوں کے باصلاحیت نوجوانوں کومنصوبے کے تحت گرفتار کر کے قتلکررہے ہیںتاکہ بلوچوں کو قیادت سے محروم رکھاجاسکے۔پاکستان بھی کوشش کررہاہے کہ وہ ایرانی گجر کی مدد سے جوکہ گزشتہ کئی صدیوں سے مسلسل بلوچوں کا قتل عام کرتے آرہے ہیں 71کی طرح کمک لے کر بلوچوں کو کچل ڈالے لیکن اب پاکستان میں اتنا دم خم نہیں رہاہے ۔

بلوچ قومی تحریک میں کراچی کے بلوچوں کا کردار ہمیشہ مثالی رہاہے عصاءظفر

کراچی (خبارات ) بلوچ نیشنل موومنٹ کراچی کے زیر اہتمام عوامی رابطہ مہم جاری ہے جس میں لیاری میں مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات ،کارنر میٹنگ و فکری نشستوں کے زیر اہتمام کئے گئے ایک سلسلے میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات گل محمد ی لین چاکیواڑہ میں فکری نشست کااہتمام کیا گیا جس میں لیاری کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔پروگرام کی صدارت بی این ایم کے مرکزی قائمقام صدر عصاءظفر نے کی جب کہ مہمان خاص بی ایس او (آزاد)کے مرکزی رہنماءجواد بلوچ تھے ۔ نظامت کے فرائض ذولفقار زلفی نے انجام دیئے ۔پروگرام کی ابتداء میںشہداءکی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔ فکری نشست کا موضوع ”بلوچ قومی آزادی میں کراچی کے بلوچوں کا کردار ضروری کیوں ؟“ رکھاگیا ۔عوامی اجتما ع سے بی این ایم کے قائمقام صدر عصاءظفر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچ قومی تحریک میں کراچی کے بلوچوں کا کردار ہمیشہ مثالی رہاہے ۔کراچی کے بلوچوں کا سب سے بڑامسئلہ معاشی غلامی ہے جس کاحل صرف قومی آزادی ہے ۔ بلوچ تحریک آزادی آج ماضی کی نسبت زیادہ منظم اور مضبوط ہے ۔آج قومی سیاسست دوواضح حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ایک جانب پاکستانی نیشنلسٹ پارلیمانی طریقہ سیاست کو آگے بڑھانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب آزادی پسند قوتیں ہیں جوایک واضح موقف انتھک جدوجہد کے ذریعے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو عالمی سطح پر منوانے کی کامیاب کوشش کررہی ہیں ۔پاکستانی نیشنلسٹ حق خودارادیت اور صوبائی خود مختاری کے نعرے کی آڑمیں بلوچ ساحل ووسائل کی لوٹ مار میں پاکستانی قبضہ گیر کے ساتھ حصہ دار ہیں ۔نام نہاد قوم دوست بلوچ قومی ملکیت کو اپنی ذاتی ملکیت قرار دے کر نہ صرف اپنابینک بیلنس بڑھارہے ہیں بلکہ بلوچ قوم کے استحصال میں برابر کے شریک ہیں ۔آزادی کے بعد ان نام نہاد قوم دوستوں اور سر کاری سرداروں کا احتساب کیاجائے گا اوران سے قومی ملکیت چھین لی جائیں گی ۔بلوچ تحریک آزادی نے سرکاری سرداروں کی سماجی حیثیت اور ان کے بنائے ہوئے حکمرانی کا خاتمہ کردیاہے آزادی کے بعد سرداری نظام کا بھی خاتمہ کردیاجائے گا ۔پارلیمانی نیشنلسٹوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی یہ قوم دوست کہلانے کے حقدار نہیں کیوں کہ قوم دوست اپنی سر زمین کے لیے جدوجہد کرتاہے نہ کہ اسے غیروں کے ہاتھوں فروخت کردیتاہے ۔بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے متعین کردہ تین نکات بلوچ سر مچاروں کی حمایت ، بلوچ قومی آزادی اور غیر پارلیمانی سیاست پر اگرکوئی جماعت متفق ہو تواس سے ہمارا اتفاق ہوسکتا ہے ۔بلوچ سنگل پارٹی کا خواب ضرور پورا ہوگا ہم اسی جانب گامزن ہیں ۔اس کے علاہ جواد بلوچ ، اسفندیار بلوچ اور بی این ایم کے سینٹرل کمیٹی کے رکن حاجی رزاق نے خطاب میں کہاکہ برطانوی سامراج نے کو غیر فطر ی ریاست پاکستان کو تشکیل دیاتوا س وقت کراچی میں بلوچ واضح اکثریت میں تھے اور اس شہر کوانہوں نے ہی بسایاتھا ۔پاکستان نے ہمیشہ مقامی لوگوں کو لوٹنے اور ان کا استحصال کرنے کے لیے غیروں کو لاکر مسلط کیا کیوںکہ غیر مقامی کی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ عوامی استحصال کے سمجھوتے میں بلا جھجک شریک ہوجاتاہے ۔مہاجر آباد کار جب پاکستان پہنچے بھی نہ تھے توغیر فطری ریاست نے ان کی آبادکاری ، نوکریوںمیں بھرتی کرنے اور ان کی زبان کو مقامیوں پر تھوپنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی تھی مقامی لوگوں کے اندر اغیار پرستی کے جراثیم پید اکرنے کے لیے سازشیں شروع کی گئیں جسے محسوس کرکے بلوچ قلمکار ، دانشوروں ، سیاسی وسماجی رہنماوں نے مذمت کرتے ہوئے اپنی زبان ، ثقافت ، اقدار ، معشیت اور پہچان کو بچانے کے لیے کوششیں شروع کردیں ۔

دشت ٹالوی میں بی این ایم کے یونٹ کا قیام

دشت ( پ ر ) دشت ٹالوی میں بی این ایم کے یونٹ کا قیام عمل میں لاکراکرم بلوچ یونٹ سیکریٹری اور کریم بلوچ ڈپٹی یونٹ سیکریٹری منتخب کیے گئے ۔یونٹ کی تشکیل کے لیے بی این ایم بلنگور ھنکین کے آرگنائزر صابر بلوچ اور منصور بلوچ نے دورہ کیا ۔اس موقع پر انہوںنے کہاکہ بلوچ نیشنل موومنٹ آزادی کی جنگ میں منظم ہوکر سائنسی بنیادوں پر ہر اول دستے کا کرداد اداکرنا چاہتی ہے ۔بی این ایم کی جدوجہد جذباتیات اور ردعمل کی بنیاد پر نہیں پختہ نظریات کی بنیاد پر جاری ہے۔ اس لیے بی این ایم اپنے عظیم قائد شہید غلام محمد اور شہید لالہ منیر کی شہادت کو حوصلے سے برداشت کرتے ہوئے طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنی سر گرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے ۔اب بی این ایم کے لیے اس سے بڑی آزمائش نہیں آسکتی ۔سنجیدہ طبقات اور نوجوان بی این ایم کے کارروان میں شامل ہوکر اس کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اپناقومی فریضہ نبھائیں ۔

زاہدان حملے کے الزام میں ایرانی رجیم نے بے گناہ بلوچوں کو سر عام پھانسی پر چڑھایا ہے

کوئٹہ ( پ ر) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہاگیا ہے کہ زاہدان حملے کے الزام میں ایرانی رجیم نے بے گناہ بلوچوں کو سر عام پھانسی پر چڑھایا ہے ۔ایران کی طرف سے بلوچوں کا بے دریغ عدالتی قتل بڑھتا جارہاہے ۔پاکستان کی طرف سے ایران کے مطالبے پر لوگوں کی حوالگی سے خدشہ ہے کہ پاکستانی مقتدرہ اپنے مخصوص مفادات کے لیے بے گناہ بلوچوں کوایران کے حوالے کرئے گا جہاں انہیں ظالمانہ عدالتی احکامات کے تحت پھانسی دی جائے گی چند ایام پہلے بھی پاکستان پانچ بلوچ علماءکو قتل کے لیے ایران کے حوالے کرچکاہے ۔دونوں ریاست بلوچوں کے قتل عام کے لیے متفق ہیں اس لیے کسی بھی قانون اور انسانی حقوق کو خاطر میں نہیں لایا جارہا ۔پاکستان اور ایران کے زیر انتظام سر حدیں غیر فطری ہیں ان کی بنیاد پر کسی کو ایرانی شہری کہنا درست نہیں بلوچ گلزمین تمام بلوچوں کی مشترکہ ملکیت ہے اس کی تقسیم جابرانہ اور اس بنیادپر مجرمانہ کی حوالگی غیرانسانی طریقہ ہے جس پر عالمی سطح پر قدغن لگانا چاہئے۔ایرانی فورسز جب بھی چاہتی ہیں پاکستان کے زیر انتظام گاﺅں میں گھس کر قتل عام کرتی ہیں اس خون خرابی کی پاکستان ہمیشہ خاموش حمایت کرتی رہی ہے ۔پاکستان کے مشیر داخلہ کے بیان سے واضح ہواہے کہ اگراسءموقع ملے تووہ یہاں کے بلوچ لیڈران کوبھی گرفتار کرکے ایران کے حوالے کردے گا کیوں کہ قوم دوست سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے ایرانی رجیم کے ظالمانہ اقدامات کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔دونوں ریاستوںکی طرف سے بلوچ کشی کے انتہائی اقدامات تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہیں اور عالمی ادارے خاموش تماشاہی کا کردار اداکرکے جرم کاارتکاب کررہے ہیں ۔ہم تمام انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایران اور پاکستان کے درمیان مجرمان کی حوالگی پرنظر رکھیں کیوں کہ پاکستان ماضی میں بھی بے گناہ لوگوں کوقتل کے لیے ایران کے حوالے کرچکاہے ۔

بلوچ قوم پر لشکر کشی کے ساتھ ثقافتی ، معاشی ، سیاسی اور سماجی حملے بھی کیے جارہے ہیں

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ قوم پر لشکر کشی کے ساتھ ثقافتی ، معاشی ، سیاسی اور سماجی حملے بھی کیے جارہے ہیں ہمیں چالاک اور بے رحم دشمن کاہر محاذپرمقابلہ کرناہے۔ بحر بلوچ کے ساحل کو ٹرالرنگ ، ڈیزل کے کاروبار ، صنعت کاری اورشپ بریکنگ یار ڈ تعمیرکر کے بانجھ بنانے کی سازش کامقصد بلوچ ساحل سے لوگوں کو بے دخل کر کے اس پر قبضے کی راہ ہموار کرنا ہے ۔بحر بلوچ کے تحفظ کی جنگ ماہی گیروں کی نہیں پوری بلوچ قوم کی ہے جسے متحد ہوکر لڑیں گے ۔بی این ایم بحر بلوچ کے تحفظ کے لیے مقامی ماہی گیر تنظیمکے خاموش رہنے کی صورت بھی کردار ادا کرتے رہے گی ۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی قائمقام صدر عصاءظفر نے یہاں بی این ایم کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کیا۔انہوںنے کہاکہ پنجابی اپنی عسکری اور عددی طاقت کے گھمنڈ میں بلوچوں کو بد مست ہاتھی کی طرح پاﺅں تلے روند ھ کر اپنے گھناﺅنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ان کی خواہش ہے کہ وہ بلوچ سماج کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزار کر کمزو ر کر دیں ۔ وہ ماہی گیروں کے لیے جداگانہ مسائل پید اکر کے انہیں بلوچ قومی مسئلے سے بیگانہ کرنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں کیوں کہ بلوچ کے ہر طبقے کا مسئلہ مشترک اور قومی غلامی سے جڑ اہے ۔بلوچ ماہی گیر وں نے غلامانہ زندگی سے چھٹکارے کے لیے ہمیشہ بلوچ قوم دوست طاقتوں کا ساتھ دیاہے اُن کے معاملے پر بھی ڈیرہ بگٹی سے لے کر مندتک بلوچ متحدہیں اور جانتے ہیں کہ بحر بلوچ کے تحفظ کا معاملہ علاقائی نہیں قومی ہے ۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچ ساحل کو دانستہ آلودہ بنانے کی سازش کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے دنیا کے ایک بڑے حصے کے خوراک کی ضرورت کو پورا کرنے والی اس بڑی ماہی گیر صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں ۔عالمی سامراج کی نظریں گزشتہ کئی صدیوں سے بحر بلوچ کے ساحل پر لگی ہیں جوکہ اسے ہتھیانے چاہتے ہیں ۔اُن کے لیے گرم پانی کا یہ سمندر ایک بہترین تجارتی گزرگاہ اور بلوچستان کے وسائل کو لوٹ کر لے جانے کا محفوظ راستہ ہے ۔بلوچستان کے ساحل کو جیونی سے لے کر گڈانی تک باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت آلودہ کیا جارہاہے ۔بحربلوچ کا ساحل ٹرالرنگ کے ذریعے آبی حیات کی بے دریغ نسل کشی کے باوجود ماہی گیری کی ایک اہم صنعت ہے جہاں سالانہ کھربوں روپے کما ئے جاتے ہیں ۔ماضی میں ساحل کے لوگ بلوچستان کے امیر ترین لوگوں میں شمارہوتے تھے جوقابض سر کارکے دشمنانہ رویے کی وجہ سے آج کھانے کو محتاج ہیں ۔ مغربی اور مشرقی بلوچستا ن کے ماہی گیر صنعت سے وابستہ سر مایہ داروں نے اس صنعت کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے بڑی کشتیاں تعمیر کی ہیں جن میں مچھلیوں کو اسٹور کر نے کے لیے جدید آئس بکس اور دیگر شکار کے آلات لگائے گئے ہیں جو پاکستان کے قابض فورسز کی طرف سے غیر مقامی ٹرالر نگ کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے اپنے اخراجات بھی پورے نہیں کر پارہے اوربڑی تعداد میں دیوالیہ ہورہے ہیں ۔اگر ٹرالرنگ او ر ساحل کو آلودہ کر نے کے دیگر عمل کو نہیں روکے گئے تو پورے مغربی بلوچستان سمیت مشرقی بلوچستان کے ساحلی علاقے میں آبادلاکھوں بلوچ شدید قحط سالی کا شکار ہوں گے جوایک انسانی بحران کاباعث بن سکتا ہے۔۔

بلوچ جدوجہد آزادی اور تامل گوریلا جنگ میں مماثلت نہیں

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتراطلاعات سے جارہ کردہ بیان میں کہاگیا ہے کہ چند درباری دانشور اور کارپوریٹ سیاسی جماعتیں تامل لیڈر کی ہلاکت کی مثال دے کر بلوچ قوم کو ڈرانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔بلوچ جدوجہد آزادی اور تاملگوریلا جنگ میں مماثلت نہیں ۔ بلوچ قوم تسلسل کے ساتھ اپنی جنگ آزادی لڑنے کابھر پور حوصلہ رکھتی ہے۔تامل گوریلا جنگ سفاکانہ بلوچوں کی نتائج خیز رہی ہے ۔دانشور اس بات کو چھپانے کی بجائے زیر بحث لائیں کہ بلوچ طبقات اور قبائلیت سے نکل کر قومی بنیاد پر منظم ہورہے ہیں۔ یہ جنگ کسی قبائلی سردار یا طلسماتی شخصیت کی قیادت میں نہیں آزادی کے موقف پرلڑی جارہی ہے ہمارا ہر لیدڑ قیادت سنبھالنے سے پہلے اپنی شہادت قبول کر چکا ہے اور اس کی متبادل قیادت اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے۔ یہ جنگ اسی وقت ختم ہوگی جب بلوچ فتح مند ہوں گا یا اس کا آخری غیرت مندبچہ بھی محاذپر شہید کیاجائے گا ۔بلوچوں نے تامل ٹائیگر لیڈر کی ہلاکت جیسے کئی سانحات جھیلے ہیں ۔شہید بالاچ مری جیسے سر خیل کمانڈر کی شہادت بلوچوں کے حوصلوں پست نہ کرسکی نہ ہی شہید اکبر کے بعد اُن کی جدوجہد لاوارث ہے۔ تامل لیڈر کی شہادت پر ہماری مایوسی کا کوئی رشتہ نہیں بنتاماسوائے اس کے کہ محکوم قوم کی حیثیت سے ہم پر بھاکرن اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔کالم نگارا س بات کو گرہ میں باند ھ لیں کہ بلوچ جنگ آزادی ہتھیاروں او ر بیرونی مدد سے نہیںبلوچ قومی غیرت سے لڑی جارہی ہے دشمن کا میدان جنگ سے زیادہ اخلاقی جنگ میں شدت سے شکست دیتے رہے ہیں۔

بی این ایم میں شمولیت سے قومی تحریک کو استحکام ملے گی

کوئٹہ ( پ ر ) صادق ، آغاعابد شاہ ، نبی بخش ، نادر اور ان کے ساتھیوں کی بی این ایم میں شمولیت سے قومی تحریک کو استحکام ملے گی ، بی این ایم میںشامل ہونے والے دوستوں کو مبارک باد دیتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی صدر عصاءظفر ، سیکریٹری جنرل خلیل بلوچ اور دیگر عہدیداروں نے بی این ایم میں شمولیت اختیار کرنے والے ساتھیوں کومبارکبادی پیغام میں کیا ۔انہوں نے کہاکہ بلوچ قومی تحریک میں شہد اءکی قربانیوں کی بدولت جو ابھار آیاہے اس کا تقاضاہے کہ ہم نئے جذبات اور نئے عزم کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتے رہیں ۔ دشمن پر ثابت ہوگیاہے کہ قربانیاں ہمارے پاﺅں کی زنجیر نہیں بن سکتیں بلکہ ساتھیوں کی شہادت اور زیادہ جذبات پختگی عطا کی ہے اب ہر کارکن اپنے شہید قائد غلام محمد بلوچ ، شہید لالہ منیر اور شہید شیر محمد سمیت دیگر ہزاروں شہادتوں کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب ہے جوکہ آزاد بلوچستان کے سوا کسی دوسری نہیں لیا جاسکتا ۔نئی شمولیت اختیار کرنے والے ساتھی نظریاتی ، سیاسی شعور اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ہیںامید کرتے ہیں یہ دوست اپنے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پارٹی کو مزید مضبوط اور فعال بنانے میں کردار اداکریں گے ۔

دشت کمبیل یونٹ کی طرف سے ایک وضاحتی بیان

دشت ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ دشت کمبیل یونٹ کی طرف سے ایک وضاحتی بیان میں کہاگیاہے کہ گزشتہ دنوں ایک مقامی اخبار میں دشت کمبیل کے جن بزرگ افراد کابی این ایم میں شمولیت کا بیان شائع ہواہے و ہ بیان بی این ایم کی طرف سے جاری نہیں کیاگیاہے ۔کمبیل کے بزرگ رہائشی عبدی بشام ، محراب شاہ داد ، محمد عمر ، کہدہ عبداللہ ،داد محمد اور یار محمد بی این ایم کے ممبر نہیں ۔بیان میں اس طرح کے عناصر کو سختی سے انتباہ کیا گیاہے کہ وہ بی این ایم کے خلاف اخباری پروپیگنڈہ کرنے سے گریز کریں بی این ایم ایک حُریت پسند جماعت ہے اسے اخباری پر چار اور سیاست کی کوئی ضرورت نہیں ۔

شہید غلام محمد بلوچ نے وقت اور حالات کا درست اندازہ لگاتے ہوئے قومی جدوجہد آزادی کا آغا زکیا تھا

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ بلوچ جدوجہد آزادی واضح موقف کے ساتھ درست سمت میں جاری ہے ۔ جو عناصر قربانیوں کو نقصان سمجھ رہے ہیں و ہ غلطی پر ہیں کامیابی کے لیے قربانی دینا لازمی ہے قربانی کاحصہ جتنا زیادہ ہوگا کامیابی اتنی شاندار اور دیرپا ہوگی ۔ شہید غلام محمد بلوچ نے وقت اور حالات کا درست اندازہ لگاتے ہوئے قومی جدوجہد آزادی کا آغا زکیا تھا اگر بی این ایم واضح قومی موقف کے ساتھ میدان میں نہ ہوتی تو آج کار پوکریٹ سیاستدان بلوچ قومی شناخت سے بھی دستبردار ہوچکے ہوتے ۔شہید کی سیاسی بصیرت کی گہرائی کے ساتھ مطالعے کی ضرورت ہے تاکہ اس موقف کو جوبی این ایم کی طرف سے بار بار دہرایا جارہاہے کہ واقعات حالات کو جنم دیتے ہیں اور موجودہ حالات جس میں بلوچ عوام میں انتہائی حد تک آزادی کی خواہش جنم لے چکی ہے اورنئی نسل اپنی آزادی کے لیے انتہائی حد تک جانے کے لیے تیار ہے بلوچ قوم کے جرا ت مند قائدین کی قربانیوںکی پیدا کردہ ہیں ۔ مناسب وقت کا تعین درست طور پر کیاگیاہے اور مناسب حالا ت جدوجہد اور قربانیوں سے پید اکی جاتی ہیں۔مناسب حالات کے انتظار کرنے والے کسی معجزے کے منتظر ہیں جو بزدلی کی علامت ہے ۔ نوجوانوں کے کھرے جذبات اور بلوچ قائدین کے آہنی اعصاب کی بدولت دشمن کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے قابض قوم سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بلوچ دھرتی تنگ ہوچکی ہے اس سے زیادہ کامیابی آزادی کے علاوہ نہیں ہوسکتی ۔ جودوست اپنی سر زمین او ر دھرتی سے وفادار ہیں وہ جرا تمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شامل ہورہے ہیں اور جو قوتیں جمہوری جدوجہد کا راگ الاپ رہی ہیں وہ قوم کو اس مقام سے پیچھے ہٹانا چاہتی ہیں قوم دوست سیاسی کارکنان کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ سیاسی اصطلاحات کے درست مفہوم اور کرداروں کے رویوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور بلوچ دانشور ابہام پید اکرنے کی بجائے قومی آزادی کی جذبات کی پختگی کے لیے اپنے قلم کااستعمال کریں ۔جو سیاسی جماعتیں درست تنقید سے ناراضگی کا اظہار کررہی ہیں وہ پارلیمانی سیاست کے لیے سازگار ماحول چاہتی ہیں جو قومی مفادات کے برخلاف ہے ۔قومی تحریک کی آبیاری اوراس کوتوانائی فراہم کرنے کے لیے بی این ایم اور دیگر قوم دوست جماعتوں کے کارکنان نے جانوں کے نذرانے دیئے ہیں اور پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اذیتیں برداشت کررہے ہیں جس میں نام نہاد قوم پرست حصہ داری نہ ہونے کی باوجودقابض قوتوں کومذاکرات کی پیشکش کر رہے ہیں ۔ان قربانیوں کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے خواہشمند حقیقی قوم دوست جماعتوں سے ”شرابی کوپجاری “کہنے کا غیر منطقی مطالبہ کر کے اُنہیں شہید غلام محمد کی سیاسی طر زعمل سے بھٹکانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں شہیدکی ہمیشہ اپنے سیاسی دوستوںکو وصحیت رہی ہے کہ اُن سیاسی بد کردار لوگوں سے جو قوم دوستی کے نام پر قوم فروشی کررہے ہیں کوئی رعایت نہیں برتی جائی اور عوام کو اُن کے اصل کرتوتوں سے آگاہ کیا جائے ۔ شہید بالاچ مری ، شہید غلام محمد اور براھمدگ بگٹی نے بلوچوں کو آزادی کے ایجنڈے پر متفق کرنے کے لیے بلوچ نیشنل فرنٹ قائم کیا اور بلوچ سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ واضح نکات کی بنیاد پر اتحاد تشکیل دی جوسنگل حُریت پسند پارٹی کی بنیاد ہے ۔پارلیمانی نام نہاد قوم دوست جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی تجویز ناقص ہے ۔ایک نام نہاد قوم دوست جماعت اپنی منشور اور طرزعمل میں قوم دوستی کی تعریف پر پورا نہیں اُترتی ہم پاکستان کو کثیر القومی کا وفاق نہیں پنجابی شا ؤنسٹ ریاست سمجھتے ہیں جس کے زیرانتظام بلوچستان کی حیثیت اُن کے دیگر زیر دست قومی اکائیوں سے یکسر مختلف ہے جس پر بزور طاقت قبضہ کیا گیا ہے جو کہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہے۔ جب کہ مذکورہ قوم دوست جماعت کے آئین میں پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے کام کررہاہے اتنے زیادہ تضادات اور مختلف سوچ کی حامل جماعتوں میں اتحاد کی بات کرنے والے دونوں جماعتوں کی بنیاد ی اسا س سے واقف نہیں ۔

مند کے درجنوں افراد نے بی این ایم میں شمولیت اختیار کی

مند ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے شہید قائد غلام محمد بلوچ ، شہید شیر محمد اور شہید لالہ منیر کے چہلم کے موقع پر مندکے درجنوں افراد نے بی این ایم میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ کے منشور اور جدوجہد سے اپنی مکمل ہم آہنگی اور قیادت پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیاہے ۔شمولیت کرنے والوں میں بلوچ زبان کے اُبھرتے ہوئے نوجوان گلوکار صلاح رند تگرانی ، حنیف گوھر ، ظہور ارمان ، چراگ حاجت ، سالم نور ، نمروزنور ، مختار عزیز ، بالاچ مجید اور روزی بلوچ شامل ہیں ۔انہوںنے کہا ہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ قومی آزادی کے حوالے سے واضح موقف رکھنے کے ساتھ ساتھ اس فکر کو عام کرنے کے لیے سیاسی وشعوری پروگرام رکھتی ہے ۔بی این ایم کے شہید قائد غلام محمدبلوچ کی انتھک محنت اور ان کے شہید ساتھی لالہ منیر کی جدوجد آزادی سے وارفتگی نے بی این ایم کوایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے جسے انہوںنے اپنے خون کا نذرانہ دے کر مزید استحکام بخشا ہے۔بی این ایم کی موجودہ قیادت شہداءکے فکر کا وارث ہےجو اسی جرا ت اور ثابت قدمی کے ساتھ تحریک چلارہے ہیں جس طرح شہدا ءنے اپنی قومی ذمہ داریاں نبھائیں تھیں ۔ وقت نے ثابت کردیاہے کہ بی این ایم ایک مضبوط جماعت ہے جو بڑی سے بڑی مشکل اور سانحہ کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔پارٹی قیادت تدبر اور حکمت سے شہداءکی قربانیوں کو ایندھن بناتے ہوئے بی این ایم کو اس مشکل وقت میں فعالیت اور اپنے منزل کی طرف لے جارہی ہے جس سے اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ پارٹی میں قیادت کا فقدان ہے ۔نوجوان نسل اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو چاہئے کہ وہ بہادر انہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی این ایم کے فلیٹ فارم پر آکراپنی قومی ذمہ داریاں نبھائیں ۔تحریک کواس کٹھن دور میں کامیابی کے لیے مزید قربانیوں کی ضرورت ہے جس سے ہم کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہمیشہ پارٹی اور اس کے منشور کے ساتھ وفادار رہیں گے ۔