HELP BALOCHISTAN Cyclone Victims

HELP BALOCHISTAN Cyclone Victims
مکران ‘ دُولاب جتیں بلوچاں کمک کن اِت

The President of Baloch National Movement

Thursday, December 17, 2009

ملیر میں بلوچ آبادی پرایم کیو ایم کے مسلح غنڈوں کا حملہ اشتعال انگیز ہے

کوئٹہ( پ ر ) ملیر میں بلوچ آبادی پرایم کیو ایم کے مسلح غنڈوں کا حملہ اشتعال انگیز ہے ‘بلوچ اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں ‘بلوچ کسی قوم کے لیے شاؤنسٹ جذبات نہیں کرتے مگر جبر کوخاموشی سے قبول کرنے والوں میں سے بھی نہیں ‘سیاسی رویہ اپناناایم کیوایم کے مفاد میں ہوگا ‘ انتباہ کرتے ہیں کہ اس غنڈہ گردی کا جواب صرف کراچی کے بلوچوں کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے بلوچوں کی طرف سے دیاجائے گا ۔ یہ باتیں بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتراطلاعات سے جاری کردہ ایک بیان میں کراچی کے علاقے ملیرکی بلوچ آبادی صدیق میتگپر ایم کیوایم کے مسلح کارکنان کی طرف سے حملہ کے واقعات کے تناظرمیں جاری کردہ بیان میں کی گئی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیاہے کہ بلوچ دنیامیں جہاں کہیں بھی آباد ہوں اُن کے رشتے اپنی تاریخی سرزمین بلوچستان سے جڑے ہوئے ہیں ۔کل جن بلوچوں نے پنجاب سے ہانکے گئے مہاجرین کواپنے شہر کراچی میں پناہ دے کر بحالیمیں مدد دی آج اُنہی کی نسل پر مشتمل ایک شاؤنسٹ ٹولہ احسان فراموش بن کر بلوچ نسل کشی میں پنجاب کے آلہ کار کردار کا اداکررہاہے ۔ بلوچ اپنے عمل او ر کردار سے واضح کرچکے ہیں کہ وہ کراچی میں اپنے ساتھ تیسرے درجے کی شہری جیسا سلوک ہونیکے باجود کسی کے خلاف کینہ پرور اور شاؤنسٹ جذبات نہیں رکھتے۔ بلوچوں کی پر امن طبعیت کو اُن کی کمزوری نہ سمجھا جائے بلوچ جب ایک ریاست کے ساتھ 63سال تک جرات وبہادری سے نبر د آزما رہ سکتیہیں تو ایک جماعت سے نمٹنا بڑی بات نہیں ہوگی ۔باوجود بلوچستان کی وسیع سرزمین ‘کراچی ‘ڈیرہ جات ور اندرون سندھ میں بڑی آبادی اور وسائل کے ساتھ بہتر پوزیشن میں ہوتے ہوئے کراچی میں بسنے والی اقوام کے درمیان فساد نہیں چاہتے لیکن اس کے لیے دوسری اقوام کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ایم کیوایم اگر اپنے دعوے کے مطابق ایک سیاسی جماعت ہے تو ان مسلح غنڈوں کے کردار کی وضاحت کرئے جو اُن کے نام پر بلوچوں کو قتل کرنے کے متعدد واقعات میں ملوث ہیں ۔ایم کیوایم کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی اورباہمی تنازعات کا شکار ہے اپنی ذاتی جھگڑوں میں بلوچوں کو ملوث کرنانفرت کی انتہاہے ۔ بلوچ اُن کے رویے کے وجہ سے اُنہیں دوست نہیں سمجھتے لیکن اب تک اُنہیں دشمن قرار نہیں دیاگیاہے اگر مہاجر دوستانہ رویہ نہیں اپنا سکتے تو اجنبی کی طرح رویہ اختیار کریں وگرنہ تمام تر کشیدہ صورتحال کے ذمہ دار خود ہوں گے ۔ کراچی میں بسنے والے بلوچ ہر مشکل وقت میں دوسرے علاقوں کے بلوچوں کو اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے مگر سب سے پہلے کراچی میں رہنے والے بلوچوں کو آپس میں مثالی اتحاد کا ثبوت دینا ہوگااور ساتھ ہی ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے اپنی حفاظت کے انتظامات کرنے ہوں گے ۔

Tuesday, December 15, 2009

بی این ایم تمپ ھنکین نذر آبادبنزہ کے باسک درجان محیب کی ممبر شپ پارٹی منشور اور آئین کی خلاف ورزی کر نے پرختم کردی گئی

کوئٹہ ( پ ر ) بی این ایم کے مرکزی اعلامیہ میں کہا گیا ہے بی این ایم تمپ ھنکین نذر آبادبنزہ کے باسک درجان محیب کی ممبر شپ پارٹی منشور اور آئین کی خلاف ورزی کر نے پرختم کردی گئی ہے جس سے مذکورہ شخص کا بی این ایم سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔مذکورہ باسک کی ممبر شپ پارٹی آئین کے مطابق ھنکین صدر کی سفارش پر دمگ کے ممبران کی توثیق کے بعد ختم کی گئی ہے ۔

پاکستان کے نام نہاد جمہوری ومذہبی جماعتیں منافقانہ بیانات دے کر بلوچوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مر کزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ پاکستان کے نام نہاد جمہوری ومذہبی جماعتیں منافقانہ بیانات دے کر بلوچوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ۔ایک طرف بلوچستان کے حالات کو پاکستان کے 63سالہ جبر کانتیجہ تسلیم کیا جارہاہے جب کہ دوسری طرف بلوچ حریت پسند سیاسی ومسلح جھدکار وں کو غیر ملکی ایجنٹ قراردے کر مقبوضہ بلوچستان میں انڈیا اور ازرائیل کی مداخلت کا شور مچا یاجارہاہے ۔ مقبوضہ مشرقی بلوچستان پر پاکستان نے قبضہ کررکھا ہے جس کی پشت پناہی سے یہاں کے داخلی معاملات میں شاؤنسٹ پنجابی ایجنسیاں اور اُن کے فورسز مداخلت کررہی ہیں ۔بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کثیر تعداد میں پنجابی ایجنسیوں کے اہلکار بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں اوراسلحہ سمیت گشت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو دہشت زدہ کر کے اپنے قبضے کے خلاف خاموش رکھ سکیں ۔ پی پی پی حکومت کی طرف سے بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی سے لاتعلقی کا تاثر اشتعال انگیز ہے ۔شاؤنسٹ پنجابی فورسز اور ایجنسیاں بلوچستان میں قتل وغارت گری کررہی ہیں اور پی پی پی کی حکومت اُن کے مجرمانہ کارروائیوں کے ثبوت مٹانے کی کوشش کررہی ہے ۔ جس پاکستانی فوج اور ایجنسیوں پر پاکستان کی اپنی حکومت اور عدلیہ اعتماد کرنے پر تیار نہیں اُس پر بلوچ اعتماد کر کے اپنا گردن دشمن کے ہاتھ میں دینے کی حماقت نہیں کر سکتا ۔بلوچوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے پاکستان کے ملا‘سر خے ‘ نیشنلسٹ ‘ ترقی پسند اور جمہوریت پسند سب آزمالیے گئے ہیں اب کسی بیرونی مدد کی نہیں اپنی مدد آپ پر انحصار کر یں گے ۔بلوچوں کو شاہی انداز میں نوازنے کے جھوٹے بیانات اور زبانی دعوؤں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے پاکستانی میڈیا بلوچستان میں جاری فوجی جارحیت کو جائزقرار دینے کی کوشش کررہاہے اس کوشش کے پیچھے پاکستان کے اصل شاؤنسٹ پنجابی حکمرانوں کی منشاء شامل ہے تاکہ بلوچستان پر جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ کر کے بلوچ نسل کشی کے بعد بلوچ سرزمین اور وسائل پر قبضہ مستحکم کیا جاسکے ۔ بلوچ پاکستان کے تمام ریاستی اداروں بشمول صحافت وسیاست کو جد انہیں سمجھتے اور نہ ہی ان سے ہمدرد ی کی اُمید رکھتے ہیں۔ پاکستانی فورسز جبر کی انتہا کر سکتے ہیں لیکن بلوچوں کو ذہنی غلام نہیں بنا سکتے ۔

Monday, December 14, 2009

جبر نے پاکستان کے تعلیمی ومعاشی اداروں سے باندھ رکھاہے ' جبر کے خلا ف مزاحمت باشعور قوم کی پہچان ہے ' قاضی داد محمد

گوادر( پ ر ) پارٹی قیادت سنبھالنے کے لیے کسی معتبر کی ضرورت نہیں بی این ایم کا ہر نظریاتی جھدکار قیادت کااہل ہے ۔ یونٹوں میں موجود باصلاحیت سنگت تحریک کے استحکام کے لیے رہنماہانہ کردار کی ادائیگی کے لیے کسی اجازت نامے کا انتظار نہ کریں ‘ہم انقلابی رو یہ اپنائے بغیر آزادی پسند جھد کارکہلانے کے مستحق نہیں ۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے یہاں پارٹی ممبران کے تعارفی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ بلوچ قوم جبر ی طور پر حکمرانوں کے مسلط کردہ اداروں سے منسلک ہیں لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ پاکستان کے احسان مند ہیں ۔پاکستان نے ہمارے سماجی ادارو ں اسکول اور معاشی منڈیوں پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر پاکستانی کرنسی اور غلامانہ نصاب کی تعلیم ہماری مجبور ی ہے ۔ جبر کی سیاسی تعریف بھی یہی ہے کہ کسی قوم کو اُس کی منشااور مرضی کے بغیر کوئی کام کرنے پر مجبور کیا جائے اس جبر کے خلاف مزاحمت باشعور قوم کی پہچان ہے ۔ مقبوضہ بلوچستان میں بے روزگاری ‘بیماری ‘بھوک‘منشیات اور افلاس جیسے مسائل غیر حقیقی اورقابض دشمن کے پید اکردہ ہیں ان سے نمٹنے کے لیے اپنی توانائیاں ضائع کرنا ایساہی ہے کہ جیسے کوئی کسی درخت کو کاٹنے کے لیے اُس کی پتیوں اور شاخوں کو تراشتاہے ہمیں اگر اس مسائل کے درخت کو ختم کرنا ہے تو شہید واجہ کے فلسفے کے مطابق اس کے جڑ کو کاٹنا ہوگا۔بی این ایم کے جھدکار خود کو جذباتی اور شورش مغز کردار کے طور پر ہر گز متعارف نہیں کروائیں ۔ہم جس بلوچ قوم کے لیے مرنے مٹنے پر تیار ہیں اُس کو برداشت کرنابھی سیکھ لیں ہم نے جب بی این ایم کے آئین ومنشور سے وابستگی کاسوگند لیا تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہماراکوئی ذاتی دشمن نہیں ہمیں بیر گری کے بلوچی روایات اور جوش دلانے والے بتلوں کو آپسی تنازعات کوہوادینے کے لیے ہرگز استعمال نہیں کر نا چاہئے ۔ہمیں یہ بات دوسروں کو سمجھانی ہوگی کہ کوئی انسان سماج سے کٹ کر نہیں رہ سکتا اس لیے ہمیں اپنے سماج کے سدھار اورقومی خوشحالی کے لیے قومی سیاست اور قومی اداروں میں سر گرم ہونا چاہئے ۔

پاکستانی سرکار کی طرف سے آغاز حقو ق بلوچستان پیکج کے اعلان کے ساتھ ہی مظالم اور جارحیت میں اضافہ ہواہے

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ پاکستانی سرکار کی طرف سے آغاز حقو ق بلوچستان پیکج کے اعلان کے ساتھ ہی مظالم اور جارحیت میں اضافہ ہواہے ۔دشت مکران ‘سوئی اور کوئٹہ میں فورسز جارحانہ ایکشن کررہے ہیں ۔جب کہ پاکستان کی پنجاب نواز خفیہ ایجنسیاں بلوچ سیاسی کارکنان کو موقع ملتے ہی اغواء کر کے غائب کر نے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ رواں مہینے غفار لانگو‘سنگت ثناء سمیت دس سے زائد بلوچ قوم دوست رہنماؤں کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکار اغواء کر کے لاپتہ کرچکے ہیں ۔ اغواء کنندگان کو شہید کر کے لاشیں غائب کیے جانے کا خدشہ ہے ۔ پاکستانی حکمرانوں کے بیانات سے اشارے ملتے ہیں کہ پاکستانی ایجنسیوں نے مشرف رجیم کے دور میں اغواء کیے جانے والے چھ ہزار سے زائد بلوچوں کو جن میں سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں قتل کر کے لاشیں غائب کردی ہیں ۔پاکستان میں نام نہاد جمہوری حکومت کے قیام کے بعد ماضی کی نسبت بلوچوں کے ساتھ مظالم میں شدت پید اکردی گئی ہے ۔مشرف رجیم میں صرف اُن لوگوں کو قتل کیا جاتاتھا جو محاذجنگ پر موجود تھے جب کہ پا کستان کی سب بڑی جمہوری پارٹی کے دور حکومت میں بلوچ قد آؤر سیاسی رہنماء غلام محمد بلوچ کو اُن کے تین ساتھیوں لالہ منیر اور شیر محمد کے ساتھ اغواء کے بعد شہید کردیا گیا ۔ جب کہ جلیل ریکی ‘چاکر قمبرانی قبل ازیں غائب کردیے گئے تھے ۔پی پی حکومت کی طرف سے ان غیر انسانی اقدام کو انٹلیجنس آپریشن کا نام دینا شر مناک بیان ہے ۔ پاکستان کا وجود ایک فریب کے سواء کچھ نہیں پنجابی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس بندوبست کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جب کہ بلوچ سمیت دیگرتمام اقوام اپنی آزاد شناخت چاہتے ہیں ۔پنجابیوں کے کاسہ لیس غیر پنجابیچند کٹھ پتلی حکمران یجنٹ کا کردار اداکررہے ہیں جو اپنے حدود سے تجاوز نہیں کرسکتے مذاکرات اور پیکج مقبوضہ بلوچستان میں جاری قتل وغارت گری سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے ۔بلوچ اب کسی کے دھوکے میں آنے والے نہیں دیگرمحکوم بھی اگر خوشحالی چاہتے ہیں تو پنجابیوں کی دھوکا بازی کو سمجھ لیں ۔رئیسانی برادران یہ نہ بھولیں کہ اُن کی حکمرانی چند دنوں کی مہمان ہے انہیں پنجاب کی ثناء نوازی کی بجائے بلوچی دستار کی حفاظت کے لیے جاری قومی جنگ میں شامل ہونا چاہئے بلوچ انہیں اس قتل وغارت گری بھی برابر کے شریک سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنے آپ کو شہداء مرگاپ اور شہید رسول بخش مینگل کے خون سے بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے ۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوے کی طرح بلوچ سیاسی کارکنا ن پر مقدمات کے خاتمے کا دعوی ٰ بھی جھوٹ ہے ' قاضی داد محمد

گوادر ( پ ر ) لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوے کی طرح بلوچ سیاسی کارکنا ن پر مقدمات کے خاتمے کا دعوی ٰ بھی جھوٹ ہے ‘تحریک آزادی سے وابستگی کی بنیاد پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں بی این ایم کے کارکنان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں ‘تحریک سے دستبردار نہیں نتائج بھی قبول کریں گے ۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری اطلاعات قاضی داد محمد نے پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف مقدمات کے خاتمے کے اعلان کے ردعمل میں کیا ۔انہوں نے کہا کہ بلوچ سیاسی کارکنان کو عام معافی دینے کے اعلان کو بہانا بناکر بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کے کچھ سدابہارسیاسی نوسربازوں نے اپنے مقدمات ختم کروائے ہیں ۔بلوچ سیاسی کارکنان میں سے کسی کے خلاف مقدمات ختم نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی بلوچ جھدکار اس طرح کی خواہش رکھتے ہیں ۔فہرست میں شہداء اور گمشدگان کے نام شامل کر کے حکمرانوں نے اپنے کم ظرفی کا ثبوت دیا ہے ۔صرف گوادر میں بی این ایف کے 35سے زائد کارکنان اور حامیوں پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ہیں جن میں سے 20سے زائد بی این ایم کے کارکنان اور دوزواہ ہیں جن میں سے کسی کے خلاف مقدمات واپس نہیں لیے گئے ہیں جن لوگوں کے نام سر کار ی فہرست میں شامل ہیں اُن کو پہلے ہی مذکورہ مقدمات میں عدالت سے بریت مل چکی ہے جب کہ ان کے خلاف تاحال کئی دیگر جھوٹے مقدمات قائم ہیں ۔

کونسل سیشن موجودہ کابینہ کے آئینی مدت کے خاتمے کے بعد 2011میں ہوگا ' سی سی اجلاس بی این ایم

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدر عصاظفر کی سربراہی میں ہونے والے پارٹی کے سینٹرل کمیٹی اجلاس میں بی این ایم کی موجودہ قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ سینٹرل کمیٹی کے اس فیصلے کی توثیق کی گئی کہ پارٹی کونسل سیشن موجودہ کابینہ کے آئینی مدت کے خاتمے کے بعد 2011میں ہوگا ۔سیشن تک تمام زونوں میں آئین کے مطابق پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے تشکیل دے کر اُن کومرکزی نظم کے ساتھ مربوط کیا جائے گا ۔ دفترا طلاعات اور پارٹی کے دیگر مرکزی امور پر اُٹھنے والے اخراجات کے لیے تمام زونوں کوماہانہ ایک ہزار روپے مرکزکو دینے کاپابند بنایا گیاہے ۔اجلاس میں خالی ہونے والے سینٹرل کمیٹی کے نشستوں پر صدر کے نامزدہ کردہ پانچ نئے اراکین کی ممبرشپ کی توثیق کی گئی ۔اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیاکہ بی این ایم تحریک آزادی میں اپنے موثر کردار کی ادائیگی کے لیے اتحادی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی بڑھائے گی تاکہ عالمی سطح پر آزادی پسند جماعتوں کا یکساں موقف پیش کیا جاسکے ۔پارٹی نظم ونسق کی نگرانی اور استعداد کا ر میں بہتری کے لیے دورہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو تمام زونوں کا دورہ کر کے مرکز کورپورٹ کریں گی۔ مرکزی کمیٹی کے تمام ممبران کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ مرکزی فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنائیں ۔سینٹرل کمیٹی کے تین ممبران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جوکہ بی این ایف میں شامل جماعتوں اور بلوچ سیاسی اکابرین کے ساتھ روابط کو مضبوط کر نے اوراہم معاملات پر متفقہ قومی پالیسی کی تشکیل کے لیے کام کر ئے گی مذکورہ کمیٹی بی این ایم سے اتفاق رکھنے والی شخصیات کو بی این ایم میں شمولیت کی باضابطہ دعوت دینے کے لیے دعوتی وفد کے طور بھی کام کر ئے گی ۔اجلاس نے جلسہ جلوس سے زیادہ سر کل اور تنظیمی سازی کے کاموں کو اہم قرار دیتے ہوئے تمام یونٹوں میں باقاعدگی سے سر کل کے کروانے پر زور دیا۔تمام زونوں کے لیے جلسہ عام کرنے سے پہلے مرکز سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا۔اجلاس میں ممبران نے اپنے ریجن اور علاقوں میں پارٹی سر گرمیوں پر رپورٹ پیش کی اور سیاسی حالات کاتنقیدی جائزہ لیا ۔تمام پیش کردہ رپورٹوں کے مطابق بیشتر ریجن میں پارٹی کی کارکردگی بہتر ممبر شپ اور یونٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔

مقدمات ختم کر کے تحریک سے دستبردارنہیں کرایا جاسکتا 'عصاء ظفر

کوئٹہ ( پ ر ) مقدمات ختم کر کے تحریک سے دستبردارنہیں کرایا جاسکتا‘آزادی کے لیے قید وببند معمولی بات ہے پھانسی چڑھنے پر بھی تیار ہیں ‘اگر ضرورت پڑی تو گرفتاریاں پیش کریں گے‘ ڈاکٹر عبدالحئی اور دیگر پارلیمنٹ پسند سر کاری قوم پرست وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش نہ کر یںواضح کر چکے ہیں کہ مراعات ‘ صوبائی خود مختاری اور وسائل کی تقسیم میں حصہ داری نہیں آزادی چاہتے ہیں ‘ اس حوالے سے بی این ایف کے اجلاس میں اہم فیصلے کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدرعصاء ظفر نے سر کار پاکستان کی طرف سے اُن کے اور بی این ایم کے دیگرکارکنان کے مقدمات ختم کیے جانے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے منافقانہ پیکج اور جھوٹے دعوؤں پر بات کرکے یہ تاثر دینا نہیں چاہتے کہ ہم پاکستان کے جبری بندوبست سے کوئی اُمید رکھتےہیں۔ جو سچائی جاننا چاہتے ہیں اُن کے لیے بلوچ مسئلے اوربلوچستان کےحوالے سے پنجاب شاہی کی بد نیتی کو سمجھنا مشکل نہیں ۔بلوچ سیاسی کارکنان کے مقدمات کے خاتمے کو بہانہ بنا کر چور اور لٹیروں نے اپنے مقدمات ختم کروائے ہیں جن کا بلوچ سیاست سے دور کا واسطہ نہیں۔ جن بلوچ سیاسی کارکنان کے مقدمات کے خاتمیکے دعوے کیے جارہے ہیں اُن میں سے اکثریت پاکستان کے خفیہ اداروں کے عقوبت خانوں میں ہیں ۔ جن میں سنگت ثناء نمایاں ترین مثال ہیں جنہیں ایک دن قبل ہی پنجاب شاہی کے خفیہ کارندے اُنکے پانچ ساتھیوں لاپتہ کر چکے ہیں اور جلیل ریکی بھی پاکستانی ایجنسیوں کے تحویل میں ہیں سر کار اُن کے خلاف بوگس مقدمات خاتمے کا اعلان کر کےکوئی خوشبری نہیں سنارہے بلکہ زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں ۔بلوچ سیاسی کارکنان پر جعلیمقدمات کے خاتمے کا شاہی اعلان ایساہی ہے کہ جیسے کسے کوخون بہامیں کفن دیاجائے ۔ دنیا کو دھوکا دینے کے لیے یہ تاثر دیا جارہاہے کہ پنجابیوں نے بلوچوں کے خطرناک جراہم کو ختم کر کے اُن پر احسان کیاہے ۔ اگر پنجاب شاہی اس خطے اور بلوچوں پر اتنا ہی مہربان ہیں تو اپنا قبضہ ختم کر کے بلوچستان سے نکل جائے۔آزادی کی تڑپ بلوچوں کو اب اسی وقت چین سے بیٹھنے دے گی جب وہ ر مادر وطن مقبوضہ بلوچستان کوغلامیکی زنجیروں سے آزاد کرالیں گے ۔پارلیمنٹ پسند سیاسی مداری اس خوش گمانی میں نہ رہیں کہ حریت پسند قوم دوست اب تھک چکے ہیں اور حکومت کی کسی ذلت آمیزپیش کش کو قبول کر کے شہداء کے خون سے غداری کر لیں گے اب حالات بدل چکے ہیں غداری کرنے والوں کا پھولوں کا ہارنہیں پہنایا جائے گابلکہ اس کا نام غداروں کی فہرست میں شامل کرکے اس قومی غدار ی کی سزاء دی جائے گی ۔

بی این ایم کا کوئی یوتھ اور خواتین ونگ نہیں

کوئٹہ ( پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعات کی طرف سے گزشتہ دنوں اخبارات میں بی این ایم یوتھ ونگ کے حوالے سے جاری کردہ ایک خبر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ بی این ایم کا کوئی یوتھ اور خواتین ونگ نہیں ۔بی این ایم میں صنف اورعمر کے حوالے سے کارکنان میں کوئی درجہ بندی نہیں کی جاتی ۔18سال کا ہر مرد وزن بی این ایم کا تین مہینے
کے دوزواہ بننے کے بعدھنکین صدر کی سفارش پر ممبر بن سکتاہے ۔ذیلی نظم سے تعلق رکھنے والے عہدیدار اور کارکنان کو سختی سے تاکید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ بی این ایم خواتین اور بی این ایم یوتھ ونگ کا نام استعمال نہ کریں بلکہ پارٹی آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے ھنکین اور یونٹ کے اندر کام کریں ۔آئندہ اس طرح کے بیانات دینے کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔

ایڈوکیٹ انور بلوچ نے خود کو تحریک آزادی کے لیے وقف کر رکھا تھا

سیکریٹری جنرل ایڈوکیٹ انور بلوچ کی وفات کے حوالے سے بیان میں کہا گیاہےکہ مرحوم تحریک آزادی کے مخلص جہد کار تھےجنہوں نے خود کو تحریک آزادی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔اُن کی رحلت پارٹی اور قومی کے لیے صدمہ ہے ۔بی این ایم کےکارکنان اُن کی تحریک آزادی اور پارٹی کے حوالے سے خدمات کوہمیشہ یاد رکھیں گے اور اُن کا نام بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ قومی آزادی کے جہد کاروں کے ساتھ سنہرے حروف میں لکھاجائے گا ۔

Thursday, December 3, 2009

مندمیں ایف سی اہلکار وں نے شہیدغلام محمد کے مزار پر لگے پارٹی جھنڈے کواُتار کر مزار کی چار دیواری پر لکھے اُن کے اشعار مٹا دیے

کوئٹہ﴿ پ ر﴾بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتر اطلاعا ت سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ مندمیں ایف سی اہلکار وں نے شہیدغلام محمد کے مزار پر لگے پارٹی جھنڈے کواُتار کر مزار کی چار دیواری پر لکھے اُن کے اشعار مٹا دیے ہیں۔ایف سی کی طرف سے شہیدکے اہل خانہ کو بھی حراساں کیا جارہاہے ایف سی اور پاکستانی فورسز کاجارحانہ یہ رویہ بلوچوں کے لیے نیا نہیں ۔ بلوچ قوم نے قومی غلامی کے خلاف جنگ کااعلان کیا ہواہے اس جنگ کے نتائج کوخنداں پیشانی سے قبو ل کرنے کی جو روایت شہید واجہ اور دیگر بلوچ شہدا نے رکھی ہے پارٹی کا ہر کارکن اسی پر کاربند رہے گا ۔ایف سی کے ظلم وتشددراستے سے نہیں بھٹکا سکتے قوم شہدا ئ کے ورثااور اہل خانہ کے تحفظ سے غافل نہیں البتہ قومی غلامی کے خلاف جدوجہدکو اولیت حاصل ہے جس کی خاطر بلوچ شہدا نے جانوںکانذرانہ پیش کیا ہے ۔بلوچستان کے کونے کونے میں جاری پاکستان کے پنجابی شائونسٹ فورسز کی بربر یت پاکستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے دعوے کوغلط ثابت کرتے ہیںبلوچستان کے حالات بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے لے کرآج تک یکساں ہیں ۔بلوچوں نے کسے سے نہ حقوق کی بھیک مانگی ہے نہ مراعات کی خاطر جنگ لڑرہے ہیں۔ جنگ کا مقصد قومی غلامی سے چھٹکارہ ہے جسے پنجابی شائونسٹ علیحدگی پسندی اور بغاوت کانام دے کر بلوچ نسل کشی کوخطے میں جواز فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ماضی میں بھی بلوچوں پر اسی طرح ظلم ستم ہوتا رہاہے لیکن بلوچ شہدائ کے قبروں کی بے حرمتی کانیاسلسلہ آغاز حقوق بلوچستان پیکج اور پاکستان کے نام نہاد جمہوری حکومت کا تحفہ ہے ۔