پلیری +پشکان +جیمڑی (پ ر ) بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچ قومی آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کررہی ہے ، ہم بی ایل ایف یاکسی دوسری مسلح حریت پسند جماعت کے کسی عمل کے جوابدہ نہیں ،ہم کسی ایک گروہ فرد یا کسی خاص مسلح حُریت پسند جماعت کے حامی نہیں بلکہ مسلح جدوجہد کو آزادی کا موثر ترین ذریعہ مانتے ہیں ۔اگر کوئی جماعت بلوچ قومی آزادی کے بارے میں ابہام پید اکرئے تو تحریک کا دفاع ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ہم کسی کی ذات پر کیچڑ نہیں اچھالتے سیاسی زبان میں اپنی مخالفانہ اظہار کرتے ہیں، ہماری تنقید کرنے پر پابندی کی صورت مخالفین پر بھی یہی ضابطہ لاگو ہونا چاہئے ۔ان خیالات کا اظہاربلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدر عصاءظفر نے اپنے گوادر کے دورے میں پلیری ، پشکان اورجیمڑی میںسیاسی کارکنان کے وفود اور عمائدین سے ملاقات میں کیا ۔انہوں نے پلیری میں شہید غلام محمد یونٹ کے قیام کو بلوچ نیشنل موومنٹ کے لیے ایک نمایاں کامیابی قرار دیتے ہوئے کہاکہ آج بی این ایم شہد اءکی قربانیوں اور کارکنان کی انتھک محنت کی بدولت بلوچستان کے ہر گاﺅں اور گدانوں تک پہنچ چکی ہے وہ دن دور نہیں کہ پارٹی ایک مکمل انقلابی جماعت کی صورت اختیا ر کر لے گی ۔انہوںنے کہاکہ ہمیں معلوم ہے ہم نے جس راستے کا چناﺅ کیا ہے اس میں ہمیشہ ریاستی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیے جاسکتے ہیں لیکن ہم زندگی کی آخری سانس تک آزادی بلوچستان کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ہم نہیں کہتے کہ کل بلوچستان آزاد ہوگا اس میں سوسال بھی لگ سکتے ہیں اور چار دن بھی لیکن جدجہد میں تسلسل برقرار رکھنا لازمی ہے ۔بلوچ قومی تحریک ماضی میں قیادت کی غیر مستقل مزاجی اور کمزرویوں کی وجہ سے منظم نہ ہوسکی ۔ماضی کی جدجہد موجودہ تحریک کو بنیاد اور جواز ضرور فراہم کرتی ہے لیکن نواب اکبرخان کی شہادت کے بعد تحریک ہمہ گیرا ور پہلے کی نسبت زیادہ منظم ہوئی ہے ۔انہوں نے جیمڑی اور پشکان میں اپنے لیکچر پروگرام کے دوران کیے گئے مختلف سوالات کے جوا ب میں کہاکہ ہم ہر اُس جماعت سے اتحاد کے لیے تیار ہیں جوکہ قومی آزادی ، بلوچ سر مچاروں کی حمایت اور غیر پارلیمانی طرز سیاست کے شرائط پر متفق ہولیکن ہم کسی ایسی جماعت کے ساتھ ہر گز اتحاد نہیں کریں گے جوکہ پاکستانی آئین اور پارلیمنٹ کی بات کرتی ہے ۔ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت سے اختلاف نہیں رکھتے بلکہ پاکستانی پارلیمنٹ اور جمہوریت کو ڈھونگ سمجھتے ہوئے ان کے ذریعے بلوچ مسئلے کا حل ڈھونڈنے والوں سے متفق نہیں ۔حق خود ارادیت ، آزادی کے مقابلے میں ایک مبہم اور غیر واضح اصطلاح ہے جس کے معنی کسی قوم کواس کی مرضی کے مطابق اپنی اکائی کے انتظامی بندوبست کے حوالے سے آزادانہ فیصلے کااختیار دیناہے لیکن اگر کسی ملک کے آئین اور قانون میں یہ بات نہ ہو تو یہ مطالبہ غیر منطقی لگتاہے اگر ہمیں کل کسی کے پوچھنے پر بتاناہے کہ ہم آزادی چاہتے ہیں توآ ج اس مطالبے میں کیاحرج ہے ۔بلوچ مسئلہ قومی غلامی ہے شہری حقو ق کی پامالی اور حق حکمرانی نہیں ۔بلوچ کو، بلوچ گورنراور وزراءکی صورت کچھ حد تک حق حکمرانی حاصل ہے اصل جنگ اختیار اور حق آزادی کی ہے ۔خان قلات کا تحریک میں کردار واضح نہیں بلوچ کوکسی عدالت سے آزادی ملنے کی توقع نہیں نہ ہی یہ جنگ کسی کے سردار وخان کی حکمرانی کی بحالی کے لیے ہے۔ بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کررہی ہے جس کے لیے ہمیں اپنی طاقت میں اضافہ کرکے جدوجہد کو منظم انداز میں آگے بڑھاناہوگا۔